اس نے بھی شاید پہلے کی طرح جواب نہیں سنا تھا، آپ نے تیسرے کے جواب میں بھی انتہائی خاطر طبیب سے جواب دیا کہ سجدہ تلاوت سنت مؤکدہ ہے اور یوں سوالوں کی کثرت بلکہ تکرار بھی مروت اور خوش خلقی میں کمی نہیں بلکہ اضافے کا باعث بنتی۔
پچاس سوال ایک ہی درس میں :
برادر ضیدان بن عبد الرحمن الیاص نے مغرب کی نماز کے بعد شیخ کے درس کے بعد وہ سوال شمار کیے جو شیخ سے کیے گئے تھے تو ان کی تعداد پچاس تھی؎؎ یہ سوال شمار کرتے تھک گئے مگر شیخ جواب دیتے نہ تھکتے۔
الشیخ عمر احمد بافضل نے اس موضوع کو سمیٹتے ہوئے اپنی وہ آپ بیتی سنائی جو شیخ ابن باز کے ساتھ وقوع پذیر ہوئی۔ ایک مرتبہ میں مصروف تھا۔ دوران درس سوال نہ کرسکا، جب شیخ درس سے فارغ ہوئے اورمسجد سے باہر نکلے اور گاڑی میں سوار ہونے لگے تو عام طالب علموں کی طرح جو کہ شیخ پر اپنے سوالات کے ساتھ امڈرہے تھے حتی کے شیخ گاڑی میں بیٹھ گئے، جب گاڑی چلنے لگی تو میں نے بھی آگے بڑھ کر کہا، شیخ مجھے ایک سوال پوچھنا تھا، آپ فرمائیں میں آپ کے ساتھ گھر چلوں یا دوسری کسی فرصت کا انتظار کروں ؟ شیخ ابن بازنے فرمایا: ہاں ابھی سوال کرو اور پھر گاڑی روک لی۔ میرے استفسار کا جواب فوراً دیا اور گاڑی اس وقت تک رکی رہی۔ میں انتہائی مسرت کے ساتھ باہر نکلا اور میں حضرت العلامہ ابن باز کی وسعت قلبی کانہ صرف قائل بلکہ دلدادہ ہو گیا۔ میرا خیال تھا مجھے جواب ملے گا: کل دفتر آجانا یا پھر میرے ساتھ گھر چلو لیکن اس طرح فوراً جواب اور وہ بھی گاڑی روک کے، یہ صرف ابن باز کا ہی خاصہ ہے یا پھر وہ کر سکتا ہے جسے ابن باز جیسے بلند اخلاق اور وسعت قلبی نصیب ہوئی ہو۔ جزاہ اللّٰہ خیراً
بعض اوقات ایک ہی جیسے سوالات جن کے جوابات مختلف دینی دروس اور مجالس میں دیے جا چکے ہوتے ان پر بھی فراخ دلی کا مظاہرہ فرماتے، سائل کیسا بھی ہوتا اور اس کا سوال جس طرح کا بھی ہوتا، چاہے سوال کے پس منظر میں سائل کی جہالت ہو تی یا اس کی کوتاہ عقلی
|