علامہ ابن باز کے ایک شاگرد بدو(دیہاتی)کے ساتھ پیش آنے والا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک دیہاتی شیخ ابن باز کے پاس آیا اور اس نے ان سے اپنی عورت کی طلاق کے بارے میں پوچھا، تو شیخ نے فتویٰ دیا کہ تمہاری طلاق طلاق بائنہ ہے اور تمہاری عورت تمہارے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ دوسری شادی کرلے اورپھر (حتی تنکح زوجا غیرہ) کے بعد تمہارے لیے حلال ہو سکتی ہے۔ تو وہ دیہاتی باربار پوچھتا رہا اور آپ یہ ہی جواب دیتے رہے حتی کہ اس نے عامی لہجہ میں عربی بولتے ہوئے کہا:’’ شیخ! خدارا میری خاطر آپ کوئی راہ نکالیں ‘‘ تو شیخ ابن باز نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے شاگردوں میں سے ایک کو کہا:
(( أعطونی العصا۔۔۔ أ ھی لعبۃ۔))
’’مجھے ذرا ڈنڈا پکڑ انا اس کی خبر لوں، اس نے تو شریعت کو باز بچۂ اطفال بنا لیا ہے۔‘‘
اور اس وقت بھی شیخ ابن باز غصے میں نہ تھے بلکہ آپ اس دیہاتی کو سمجھا نا چاہتے تھے کہ اس معاملہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
برادر عبد اللہ العتیبی نے اسی موضوع کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے شیخ محترم کی صفات میں سائلین کے بارے میں کشادہ دلی اور طلبہ کے ساتھ شفقت ورأفت ان کے بلند مرتبہ اوراعلیٰ قدر ومنزلت کے باوجود ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور یہ صفات یقینا ان علما کی پہچان ہے جن کی جستجو آخرت ہوتی ہے۔
اتنی شان وشوکت کے باوجود اورعلمی مقام ومرتبہ کے حامل ہو نے کے باوجود وہ انتہائی درجے کے متواضع اورمنکسر المزاج تھے اوراس دنیاوی مقام ومرتبے نے ان کو متکبر بنانے کی بجائے مزید متواضع کردیا، اوریہ یقینا اہل اللہ کی نشانی ہے، انہوں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے یاد ہے، ایک مرتبہ شیخ محترم سے سجدۂ تلاوت کے حکم کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا: یہ سنت مؤکدہ ہے، پھر یہ ہی سوال دوسرے آدمی نے دریافت کیا، آپ نے اس کو بھی سنت مؤکدہ کہا، حتی کہ اسی مجلس میں ایک تیسرے آدمی نے بھی یہ ہی سوال کیا،
|