سارے دعاۃ مقرر کیے ہیں۔ یہ سارا کام میں نے خادم حرمین شریفین (شاہ فہد بن عبدالعزیز رحمہ اللہ، ولی عہد (شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز حفظہ اللہ)، امراء ورؤساء، دین سے محبت کرنے والوں اور تاجروں کی مدد سے کیا ہے۔‘‘
اس کے بعد شیخ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’دوام اور ہمیشگی تو صرف اللہ رب العزت کے لیے ہے۔ ارشاد ہے:
﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ﴾
’’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘
چنانچہ جب مجھے موت کا اٹل فیصلہ آجائے اور میں اس دنیا سے کوچ کر جاؤں تو مجھے امید ہے کہ آپ حضرات ان نیک کاموں کو جاری رکھیں گے اور اس پر اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھیں گے۔‘‘[1]أ۔ھ۔
مذکورہ باتوں سے اندازہ لگائیں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ سفارش کے معاملے میں کتنی دلچسپی لیتے تھے۔ در اصل یہ ایسی خوبی ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اور اکثر لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں چاہے وہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے شاگرد ہونے کا دعویٰ کیوں نہ کریں !!
(16)علامہ ابن باز رحمہ اللہ فائدہ پہنچانے میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے:
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہر وقت اپنے ذریعے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش میں رہتے تھے۔ ان کا جینا ہرگز ان کے لیے نہیں تھا؛ بلکہ وہ جیتے ہی دوسروں کے لیے تھے۔وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ دونوں حدیثوں کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ وہ دونوں حدیثیں ملاحظہ فرمائیں :
(1) ........رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
|