جواب:....اگر مدت اور قسط دونوں معلوم ہیں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْْہُ﴾ (البقرہ:282)
’’ اے ایمان والو! جب تم ایک مدتِ معینہ تک کے لیے آپس میں لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘
اورجیساکہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معین مدت تک کے لیے خرید وفروخت (بیع) کی اجازت دی ہے، نیز آپ خود بھی معلوم مدت تک کی شرط پر سامان خریدا کرتے تھے۔ اور چونکہ قسط پر اور مدتِ معلومہ پر بیع کرنے کی شکل نقد بیع سے مختلف ہے، اس لیے بائع ومشتری دونوں کی مصلحت کا خیال رکھتے ہوئے شریعت نے نقد کے مقابل میں قسطوں پر سامان کی قیمت زیادہ لینے کی اجازت دی ہے، چونکہ اللہ سبحانہ حکیم وعلیم اور اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔
انشورنس کا حکم
سوال:....دور ِحاضر میں انشورنس کی کچھ کمپنیاں کھل رہی ہیں اور تمام کمپنیاں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے پاس انشورنس کے جواز کا فتویٰ موجود ہے۔ بعض کمپنیوں کا یہ کہنا ہے کہ آپ اپنی موٹر گاڑی کے انشورنس کی جو رقم جمع کریں گے تو صرف اس گاڑی کو فروخت کرتے ہی آپ کو وہ رقم لوٹادی جائے گی تو اس قسم کا بیمہ کرانے کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب:....بیمہ دوطرح کا ہوتا ہے جس کا مجلس کبار علماء کے بورڈ نے چند سالوں قبل مطالعہ کرکے اس کے متعلق ایک قرار صادر کیا ہے، لیکن بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو جائزو ناجائز کے ما بین فرق نہیں کرتے ہیں۔ جائز انشورنس کی شکل یہ ہے کہ ایک جماعت باہمی اشتراک وتعاون سے صدقہ کرنے، تعمیر مساجدیا فقراء ومساکین کے تعاون کے لیے جمع کرتی ہے تو بہت سارے لوگ اس امدادی بیمہ کی آڑ میں اپنے تجارتی بیمہ کے جواز کی دلیل ڈھونڈ
|