Maktaba Wahhabi

349 - 400
لیتے ہیں، جن کے لیے ایسا کرنا غلط ہے۔ تجارتی بیمہ کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنی موٹر گاڑی کا یا بیرون ملک سے ایمپورٹ ہونے والے سامان کا بیمہ اتنی رقم میں اتنی مدت کے لیے کرایا، کبھی ایسا بھی ہو گا کہ اسے کسی قسم کا ضرر نہیں پہنچے، پھر بھی اس سے انشورنس کی رقم لے لی جائے گی اور یہ جواہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ ﴾ (المائدہ:90) ’’ اے مومنو! بے شک شراب اور جوا، اوروہ پتھر جن پر بتوں کے نام سے جانورذبح کیے جاتے ہیں، اور فال نکالنے کے تیر ناپاک ہیں اور شیطان کے کام ہیں۔‘‘ خلاصہ کلام یہ ہے کہ امدادی بیمہ وہ ہے جو ایک جماعت شرعی مقاصد کے حصول کے لیے متعین رقم جمع کرتی ہے،مقاصدِشرعیہ سے مراد فقراء ومساکین کا تعاون،یتیموں کی کفالت ان کے گھروں کی تعمیر اور دوسرے نیکی وثواب کے راستے میں خرچ کرنا ہے، اس تعاونی بیمہ سے متعلق اہم بحث علمیہ وافتاء کے لجنہ دائمہ کا فتویٰ قارئین کی معلومات کے لیے شائع کر رہے ہیں۔ کبار علما کی علمی کمیٹی کی طرف سے تجارتی انشورنس اوراس کے تمام گوشوں کے متعلق قرار داد پہلے صادر ہو چکا ہے۔ اس میں یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ اس تجارتی انشورنس میں عظیم نقصانات اور بڑے خطرات پائے جاتے ہیں اور یہ ناجائز طریقے سے لوگوں کا مال ہڑپنے کی گہری چال ہے جسے شریعت مطہرہ حرام قراردیتی ہے اور بڑی سختی سے منع کرتی ہے۔ اس کے ساتھ کبار علما کی علمی کمیٹی کی طرف سے امدادِباہمی بیمہ کے جواز سے متعلق ایک قرار داد پاس ہو چکا ہے۔ اس امدادی بیمہ کا مفہوم یہ ہے کہ اہل خیر حضرات کے چندے اکٹھے کیے جائیں جن کا مقصد محتاجوں اور مظلوموں کا تعاون اور دستگیری ہو اور اس رقم سے
Flag Counter