Maktaba Wahhabi

50 - 400
کرنے کی کوشش کروں گا۔ والسلام۔‘‘ شیخ محمد موسیٰ کا کہنا ہے کہ جب یہ جواب مذکورہ شخص کو ملا تو وہ شرم سے پانی پانی ہو گیا اور کہنے لگا کہ اب میں اپنے شیخ کو کیسے منہ دکھلاؤں گا۔ پھر بعد میں جب علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے ملا تو معذرت کرنے لگا اور شیخ سے معافی مانگنے لگا۔ شیخ رحمہ اللہ نے اس کی معذرت قبول کی اور اسے اپنی مجلس میں بٹھایا اور اس کے لیے دعائے خیر کی۔ [1] دیکھا آپ نے کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اپنے موظف کے جذبات کو کیسے سنبھالا اور اس کا دل کیسے خوش کر دیا۔ دراصل بڑے لوگ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (5) ایک دفعہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی مجلس میں بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ جب مجلس میں تشریف لائے تو ایک آدمی اٹھ کر کہنے لگا: شیخ! میری خواہش ہے کہ میں آپ کا عبا (وہ چادر جو سعودی مشائخ اور علماء کپڑے کے اوپر سے رکھتے ہیں )پہنوں، اس لیے آپ مجھے اپنا عبا عنایت فرما دیں !! شیخ ابن باز رحمہ اللہ اس کی بات سن کر مسکرانے لگے اور فرمایا: ٹھیک ہے اگر تمھیں عبا رکھنے کا شوق ہے تو میں تمھارے لیے نیا عبا خریدوا دیتا ہوں۔ وہ کہنے لگا: نہیں، مجھے وہی عبا چاہیے جو آپ ابھی پہن رکھے ہیں !! حاضرینِ مجلس یہ منظر دیکھ کر متعجب تھے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب تمھاری خواہش ہے کہ میرا عبا ہی پہنو تو چلو کھانا کھا لو میں تمھیں اپنا عبا دے دوں گا اور فی الواقع آپ نے وہ عبا اس شخص کو عنایت فرما دیا۔ مذکورہ واقعات سے اندازہ کریں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ ہر ایک کے جذبات کا کس قدر احترام کرتے تھے!! کیا ہمارے علما بھی آج یہ اسوہ اپنانے کو تیار ہیں ؟! (9)علامہ ابن باز رحمہ اللہ شکوہ شکایت کو پسند نہیں فرماتے تھے: علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ شکوہ شکایت کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ ان کی مجالس میں جب کبھی ایسا ماحول پیدا ہو جاتا کہ کوئی کسی کا شکوہ کرنے لگتا تو وہ فوراً اس ماحول کو
Flag Counter