Maktaba Wahhabi

49 - 400
اسے خرچ کر ڈالا اور ٹکٹ نہیں خرید سکا۔ جب آفس میں بات پہنچی تو آفس کے لوگ بہت پریشان ہوئے کہ اب کیا کیا جائے۔ بات علامہ ابن باز رحمہ اللہ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ چونکہ طالبعلم پر مدینہ کے کچھ لوگوں کا قرضہ تھا اور اس نے اپنے بیوی بچوں کے لیے تحفے تحائف خرید لیے ہیں تو ہمیں اس سے کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے۔ قرض کی ادائیگی بھی ضروری تھی ورنہ اس کے وطن جانے کے بعد لوگوں میں جامعہ اور اس کے طلبہ کے بارے میں غلط تصور پیدا ہو جاتا اور اس کے لیے تحفے تحائف بھی خریدنا ضروری تھا؛ تاکہ وطن واپسی پر اس کے بچوں کا دل ٹوٹنے نہ پائے۔ جہاں تک اس کے ٹکٹ اور اخراجاتِ سفر کی بات ہے تو طالبعلم کے پاس صرف دو ہزار ریال بچے ہیں۔ بقیہ رقم میری تنخواہ سے ادا کر دی جائے۔[1] قارئین کرام! ذرا اندازہ لگائیں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ دوسروں کے جذبات کا کس قدر لحاظ رکھتے تھے!! (4) علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا ایک شاگرد آپ کے ساتھ کام کرتا تھا۔ اس نے ایک دن ملازمت ترک کر دی اور انتہائی غصے میں علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی خدمت میں ایک خط لکھا۔خط کا مضمون کچھ اس طرح تھا:’’مجھے آپ سے بہت زیادہ تکلیف ہے۔ آپ کے بارے میں لوگوں کا حسن ظن ہے کہ آپ انصاف پرور انسان ہیں لیکن آپ کے ساتھ میں نے کام کیا، مجھے انصاف نہیں ملا، آپ نے کبھی بھی میرا خیال نہیں کیا۔ میرا اور آپ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرے گا!!‘‘ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے خط سنا تو مسکرا پڑے اور فوراً اس کے جواب میں لکھوایا: ’’عزیز من! سچ تو یہ ہے کہ میں تم سے بے حد محبت کرتا تھا۔ میرے دل میں تمھارے متعلق کوئی رنجش نہیں ہے۔ جہاں تک تمھارے مسائل کا تعلق ہے تو مجھے ان کے بارے میں معلوم نہیں اور نہ ہی تم نے کبھی بتانے کی زحمت کی۔ میں چاہوں گا کہ تم مجھے اپنے مسائل لکھ بھیجو، میں ان شاء اللہ تمھارے مسائل حل
Flag Counter