Maktaba Wahhabi

54 - 400
(( سمعت صوتک وأحضرت لک الطعام لأنی أظنک لم تأکل ہذہ اللیلۃ۔)) ’’میں نے تمھاری آواز سنی تو تمھارے لیے کھانا لایا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس رات کو تم کھانا نہیں کھا سکے ہوگے۔‘‘ اللہ گواہ ہے۔ میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی اس تواضع سے بڑا متاثر ہوا اور رات بھر میرے آنسو تھم نہ سکے اور مجھے نیند نہیں آ سکی۔ [1] علامہ ابن باز رحمہ اللہ اپنے مہمانوں کا کتنا احترام کرتے تھے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیں۔ اس واقعہ کے راوی شیخ عبد اللہ بن ابراہیم الفنتوخ ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا ایک شاگرد ان کا مہمان ہوا۔ اس شاگرد کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔ اسے سعودی شہریت مل چکی تھی۔ وہ رات کو شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے مہمان خانے میں سویا ہوا تھا۔ شیخ کو معلوم تھا کہ ان کا یہ شاگرد تہجدگزار ہے۔ جب تہجد کا وقت ہوا تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ نیند سے بیدار ہوئے۔ اس وقت گھر کے سارے افراد نیند کی آغوش میں تھے۔ آپ نے کسی کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور خود ہی لوٹا ہاتھ میں لے کر پانی کے لیے چلے گئے۔ مہمان خانہ پانی سے کچھ فاصلے پر تھا۔ نابینا ہونے کے باوجود شیخ رحمہ اللہ خود ہی لوٹے میں پانی بھر کر لائے اور مہمان کے پاس رکھ کر اسے آہستہ سے جگایا، مہمان کی آنکھ کھلی تب تک شیخ جا چکے تھے۔[2] (12)علامہ ابن باز رحمہ اللہ نہایت سخی انسان تھے: علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ خوشی کے ایام میں بھی اور غم کے ایام میں بھی حد سے زیادہ سخاوت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ آپ نے اپنی عمر کو گو دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف کر دیا تھا۔ جو کوئی محتاج اور ضرورت مند آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ سے
Flag Counter