مطابق آپ کے کان میں لوگوں کی چہل پہل اور شور وغل کی آواز نہیں آئی۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے آج ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے؟ آپ کو بتلایا گیا کہ دراصل آج دربانوں نے لوگوں کو گھر میں داخل ہونے سے منع کر دیا ہے، اسی لیے لوگ نہیں آ سکے ہیں۔ اتنا سننا تھا کہ آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور دربانوں کو حکم دیا کہ فوراً جاؤ اور واپس جانے والوں کو بلا لاؤ۔ [1]
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی مہمان نوازی اور مہانوں کی عزت وتکریم کے حوالے سے یہ واقعہ پڑھیں جس کے راوی شیخ عبد اللہ بن محمد المعتاز حفظہ اللہ ہیں۔ شیخ عبد اللہ المعتاز حفظہ اللہ کا شمار ان حضرات میں ہوتا ہے جو خیر وبھلائی کا سرچشمہ ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت سارے کارِ خیر انجام دیے ہیں۔ ریاض کے ادارۃ المساجد والمشاریع الخیریۃکے بانی ومؤسس ہیں۔ اس ادارے سے ایک قلیل سی مدت میں دنیا کے کونے کونے میں مساجد کا جال بچھ گیا۔ لیکن چند سالوں سے کسی سیاسی دباؤ کی وجہ سے اس کے اسپرٹ کو مہمیز لگی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے جلد از جلد بحال کر دے۔ آمین
شیخ عبد اللہ بن محمد المعتاز حفظہ اللہ کا بیان ہے کہ ارٹیریا کی ایک سوسائٹی کے چیرمین شیخ محمد حامد کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں ریاض آیا یہ سخت سردی کی رات تھی۔ رات کے کوئی تین بج رہے تھے۔ میرے پاس ہوٹل میں قیام کرنے کے لیے جیب میں فی الوقت پیسے بھی نہیں تھے۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے گھر چلا جاؤں۔ چنانچہ میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے گھر پہنچا، ان دنوں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا گھر کچی مٹی کا تھا۔ میں نے آہستہ سے آواز دی تو چوکیدار نے دروازہ کھولا۔ شاید میری آواز شیخ ابن باز رحمہ اللہ کو پہنچ چکی تھی۔ ابھی چند ہی لمحے گزرے تھا کہ شیخ رحمہ اللہ کو میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھ میں کھانے کی پلیٹ لیے ہوئے سیڑھی سے نیچے اتر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے سلام کیا اور کھانے کا برتن میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ اسے کھا لو اور پھر فرمایا:
|