شیخ ابن باز کے بیش قیمت جوہر
حکیمانہ اسلوب اور مثبت سوچ
(از:....محمد عبدالہادی العمری[1]، برمنگھم)
مدینہ یونیور سٹی کے ہاسٹل میں طلبہ اپنے اپنے کمروں میں محومطالعہ تھے کہ اچانک ایک شور سا اٹھا کہ شیخ ابن باز جامعہ کی مسجد میں تشریف لائے ہیں، یہ سنتے ہی اکثر نووارد طلبہ اپنی کتابوں کو چھوڑ کر جامعہ کی مسجد کی طرف دوڑے جارہے تھے کہ شیخ ابن باز سے ملاقات ہو جائے ان بھاگنے والوں میں ہم ہندو پاک کے علاوہ افریقی طلبہ کی تعداد بہت زیادہ تھی، چونکہ نماز ہو چکی تھی، اس لیے مسجد کے دروازے پر طلبہ دور تک کھڑے ہوگئے، اتنے میں مختلف اساتذہ اور مشائخ کے ساتھ شیخ محترم نمودار ہوئے، ہاتھ میں ہلکی سی چھڑی، جسم پر عربی لباس جو عربوں کی عادت کے برخلاف ٹخنوں سے اوپر اٹھاہوا، اتباع سنت کی غمازی کر رہا تھا، سر پر سرخ رومال، مسکراتا ہوا چہرہ اور ہونٹوں پر دعائیہ کلمات، یہ تھے شیخ ابن باز جن کے دیدار کی تمنا کئی برس سے دل میں مچل رہی تھی، اب اکثر طلبہ منتظر تھے کہ مصافحہ کا موقع مل جائے لیکن نئے طلبہ کے لیے بڑے اساتذہ اور شیوخ کی موجود گی میں یہ جرات قدرے مشکل تھی، لیکن
|