Maktaba Wahhabi

83 - 400
میں تو لوگ ارشاد وراہنمائی کے اور زیادہ محتاج اور سننے کے لیے فارغ ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ مکہ مکرمہ جانے کی اجازت چاہی، کچھ تامل وتردد دیکھا تو ارادہ ملتوی کردیا، دوسرے دن مسجد آئے تو حیرت سے پوچھا تم مکہ نہیں گئے، عرض کیا، ارادہ ملتوی کر دیا، مسکرا پڑے اور بولے: اس وقت مکہ جانے سے یہاں رہنا زیادہ بہترہے۔ رحم دلی وہمدردی: امت مسلمہ کے ہر فرد سے محبت اور اس کے ساتھ ہمدردی آپ کی خاص صفت تھی، اس میں اپنے اہل وعیال، کنبہ وقبیلہ، خویش واقارب، سعودی یا غیر سعودی کی کوئی تخصیص نہیں تھی یہ، سب سے محبت کرتے تھے، ہاں دعاۃ ومبلغین، مدرسین ومتعلمین سے کچھ زیادہ ہی لگاؤ رکھتے تھے، اسی طرح پڑوسیوں کا بھی خاص خیال رکھتے تھے، ان کی خوشی وغمی میں شریک ہوتے، آپ کی عزت، مرتبہ اور منصب کبھی اس راستے میں حائل نہیں ہوئی، بارہا آپ کے پڑوس میں مقیم شیخ ابن عساکر، ابن عیاف، شیخ محمد الیحییٰ کی دعوتوں میں شریک ہوتے دیکھا، ایک بار شیخ محمد ابن سلیمان الیحیی کو حادثہ پیش آیا تو ان کے گھر مع سیکورٹی کے تشریف لے گئے، اسی طر شیخ عبدالعزیز المقیرن کی والدہ کا انتقال ہوا تو تعزیت کے لیے بنفس نفیس تشریف لے گئے، اپنے گھر بھی دعوت دینا آپ کا محبوب مشغلہ تھا اور کوئی تقریب پندو نصائح اور ذکر الٰہی سے خالی نہیں رہتی تھی، جب سب جمع ہوجاتے تو حاضرین میں سے کسی سے کہتے کہ کچھ کلام الٰہی سے پڑھ کر سناؤ اور فی البدیہہ ایسی تشریح وتوضیح کرتے کہ آیات واحادیث کا مفہوم ہر خاص وعام کے ذہن نشین ہو جاتا۔ آپ کی رحم دلی اور ہمدردی ہی تھی کہ بنی نوع انسان کو دین ودنیا کی ضروریات سے فیض یات کرتے رہے، دنیا وی معاملات میں مساعدات وسفارشات کے ذریعہ کسی فرد بشر کو جوان کے پاس آتا خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے، دنیا کے کسی کونے سے جس نے بھی مدد کی درخواست کی اسے سخاوت سے نوازا جس تنظیم یا ادارے نے مساعدہ طلب کیا اور آپ کو ان کی سلامت روی کا یقین ہو جاتا تو اس کی امداد اور تعاون میں کوئی کسر باقی نہ رکھتے۔
Flag Counter