Maktaba Wahhabi

81 - 400
وعظ ونصیحت: ﴿وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرَ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْن﴾اور ((بلغو عنی ولو آیۃ)) کے تحت موقع ومحل کی مناسبت سے وعظ وتذکیر آپ کا محبوب ترین مشغلہ تھا، جہاں ضروری سمجھا تو اصی بالحق کا فریضہ انجام دیا، ڈیوٹی پر ہوں یا گھر پر مجلس میں ہوں یا مسجد میں، کسی لمحہ اس میں تاخیر یا کوتاہی نہیں کی، نہ کسی شخصیت کو خاطر میں لائے نہ کسی کے براماننے یا ملامت کی پروا کی، حکام ہوں یا امراء، خواص ہوں یاعامۃ الناس، الدین النصیحۃ ہمیشہ آپ کے پیش نظر رہا، اس طرح کے بیشتر نمونے بچشم خود دیکھے اور سنے، جہاں جیسی ضرورت دیکھی حکمت ودانائی، نصیحت وخیر خواہی کے ذریعے سے آگاہی دی، ایک بار جب پاؤں میں چوٹ لگی تو خادم الحرمین الشریفین عیادت کے لیے تشریف لائے، آپ نے موقع غنیمت جانا اور سلام وکلام کے بعد ارکان اسلام کی پابندی، رعیت کے ساتھ احسان، عدل وانصاف، ظلم کی بیخ کنی، فواحش ومنکرات کے سدباب اور ہر امر میں اعتصام بالکتاب والسنۃ کی تلقین کی آیات پڑھیں اور اس سلسلے کی احادیث کے متون پڑھ کر سنائے۔ آنجناب نے بڑی خاموشی اور عقیدت سے ان جواہر پاروں کی سماعت کی، جب شیخ محترم اپنی بات عرض کر چکے تو تحدیث نعمت کے طور پر ملک فہد نے بڑے ادب سے عرض کیا، یہ تمسک بالکتاب والسنۃ ہی کی برکت اور حکومت کی ان سے وابستگی کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک ساری دنیا کے لیے نمونہ ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے سونے کی نہریں جاری کر رکھی ہیں، ایک زمانہ تھا شاہ فیصل جب ریاض کے گورنر تھے ان کی تنخواہ پچاس ریال سے بھی کم تھی، ہم سمجھتے ہیں دین سے لگاؤ کا ہی نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی مہر بانی کہ نہ ہمارے یہاں سیلاب آتے ہیں، نہ زلزلے، طوفان، نہ جھٹکے، یہاں کے امن وامان اور خوشحالی کو دیکھ کر دنیا کے بڑے بڑے لیڈر بھی عش عش کر تے اور اسلام کی برکت کا بر ملا اعتراف کرتے اور عزت کرتے ہیں۔ اس طرح ایک مرتبہ ولی عہد امیر عبداللہ عید کی مبارک باد کے لیے تشریف لائے، اس وقت چند روز قبل ہی ڈش انٹینا پر حکومت کی طرف سے پابندی کا اعلان ہوا تھا، ایک شخص نے
Flag Counter