بدل دیتے اور اپنے بھائی کے بارے میں حسنِ ظن قائم رکھنے کی تلقین فرماتے۔ یہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی ایسی خوبی تھی جس سے آج کے اکثر علماء نابلد ہیں۔خود علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے کئی لوگوں کی میں نے مصاحبت اختیار کی ہے اور ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا ہے مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ ان کی مجلسیں ان کے استاذ گرامی شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی مجالس کے بالکل برعکس ہوا کرتی ہیں۔بلکہ اگر میں یہ لکھوں تو بے جا نہیں ہوگا کہ جب تک ان کی مجلسوں میں دوسروں کی شکوہ شکایت نہیں ہوتی، وہ برخاست ہی نہیں ہوتیں !! یہ ایک ایسا مرض ہے جو آج کے علماء کے اندر پوری طرح سے سرایت کر چکا ہے۔ بلکہ میں آپ کو بتلاتا چلوں کہ جاہلوں اور گنواروں کی اکثریت بھی بات بات میں یہ کہتی ہے کہ علماء جب تک ایک دوسرے کی غیبت اور شکوہ شکایت نہیں کر لیتے ان کے پیٹ کا دانہ ہضم نہیں ہو پاتا۔ اے کاش! ہمارا علما گروپ اس بات کی طرف دھیان دیتا اور شکوہ شکایت کے ماحول سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتا۔
(10)علامہ ابن باز رحمہ اللہ ہر ایک کے بارے میں حسن ظن رکھتے تھے:
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ہر شخص کے بارے میں حسن ظن اور اچھا گمان رکھتے تھے۔کوئی بھی آدمی جب ان کی خدمت میں کسی کے بارے میں کوئی منفی بات کہتا تو آپ فوراً اسے حسنِ ظن کی تنبیہ فرماتے۔ اس کی ایک مثال وہ واقعہ ہے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے پاس بیٹھنے والوں کو احساس ہو رہا تھا کہ شاید اس نے سگریٹ پی رکھا ہے۔ ایک آدمی نے اٹھ کر علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے پاس جا کر اس آدمی کی شکایت کی اور کہا کہ لگتا ہے کہ یہ آدمی سگریٹ پی کر آپ کی مجلس میں حاضر ہوا ہے، اس لیے آپ اس کو نصیحت فرمائیں۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے فوراً اس کے جواب میں فرمایا کہ تمھیں کیا معلوم کہ وہ جس کے ساتھ ٹیکسی میں آیا ہے، اس آدمی نے سگریٹ پی رکھا ہو اور ساتھ میں بیٹھنے کی وجہ سے اس کے جسم سے سگریٹ کی بو آ رہی ہو؟!! [1]
|