Maktaba Wahhabi

276 - 400
پر کافی غور وفکر کے بعد آپ یوں اس کی تائید کر تے ہیں : جب انسان ایک سے زیادہ نکاح کر نے کی استطاعت رکھتا ہو تو تعدد ازواج اچھا امر ہے، کیونکہ بعض اوقات ایک یا دو بیویاں انسان کی ضرورت کو کفایت نہیں کرتیں، میری رائے میں تعدد ازواج میں طرفین کے لیے مصلحتیں ہیں : عورتوں کے حوالے سے اس میں ان کے لیے غض بصر ہے اور شرمگاہ کی حفاظت بھی، دوسرے لحاظ سے اس طرح نسل اور آل اولاد کی کثرت میں امت کے لیے بھی مصلحت ہے، شیخ اس پر یہ اضافہ ضرورفرماتے ہیں کہ میں تعدد ازواج کی اس وقت تائید کرتا ہوں جب مرد میں عدل کرنے، نفقہ دینے اور زیادہ عورتوں کو نکاح میں رکھنے کی طاقت ہو، تعدد ازواج کے طور پر عورتوں کا نکاح ہوجانا، ان کا بے نکاح بیٹھے رہنے سے بہتر ہے۔ اپنے نکاح کا قصہ بیان کرتے ہوئے شیخ کہتے ہیں : میں نے خود تین نکاح کیے ہیں پہلی بیوی سے والدہ کی زندگی میں جنہیں انہوں نے منتخب کیا تھا، 1354ھ میں نکاح ہوا، جبکہ میری عمر 24 برس تھی، وہ عبداللہ بن سلیمان بن سمحان کی بیٹی تھیں، اپنی والدہ کی وفات کے ایک سال بعد یعنی 57ھ میں ہمارے درمیان علیحدگی ہوگئی، پھر میں نے ایک خاتون ھیا بنت عبدالرحمن بن عبداللہ بن عتیق سے نکاح کیا، میری بڑی اولاد انہی سے ہے اور آج تک میری ان سے رفاقت قائم ہے، ان سے میرے بیٹے عبداللہ عبدالرحمن اور تین بیٹیاں ہیں، میری تیسری شادی 1386ء میں منیرہ بنت عبدالرحمن الخفیر سے ہوئی جن کا تعلق منطقہ قصیم کے شہر بریدہ سے ہے، ان سے بھی میرے دو بیٹے احمد اور خالد اور تین بیٹیاں ہیں۔ شیخ کے بیٹے اور بیٹیاں : تمام بیویوں سے الحمد للہ شیخ کی کافی اولاد ہے، جیسا کہ ملاقات میں شیخ نے بتایا کہ ان کے 14 بیٹے اور 6بیٹیاں ہیں، بڑے بیٹے تجارت کرتے ہیں لیکن تربیت اولاد میں شیخ کا اسلوب کیا ہے؟ شیخ ابن باز : مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ اولاد کے بارے میں، میں بہت کوتاہ واقع
Flag Counter