عورت: یاشیخ! وہ نماز نہیں پڑھتا۔
شیخ: ٹھیک ہے، تیرا یہ حق ہے کہ تو اس سے طلاق حاصل کر لے۔
عورت: یاشیخ! میں یہ بات کس طرح ثابت کروں کہ وہ نماز نہیں پڑھتا؟
شیخ: اپنے ہمسائیوں کی گواہی حاصل کر!
عورت: وہ کیسے؟
شیخ: جب وہ مسجد میں نہ آئے اور جماعت میں شریک نہ ہو تو یہ نفاق کی علامت ہے اور اسی بنا پر تو اسے پکڑ سکتی ہے۔
عورت: ہماری ایک بیٹی ہے، کیا اس کا نام میں رکھ سکتی ہوں یا وہ ہی رکھے؟
شیخ: یہ تو بڑا سادہ مسئلہ ہے، بیٹی کا نام کیا ہے؟
عورت: اس کا نام ’’فلاں ‘‘ ہے (ہم نہیں سن سکے)
شیخ: کوئی حرج نہیں، اس نام کو بدلنے کی ضرورت نہیں، اور بات ختم ہوجاتی ہے۔
شیخ کے پاس آنے والے لوگ:
ایک دوسرا آتا ہے، وہ کسی شخصیت کی مدد کی درخواست کرنا چاہتا ہے، شیخ اس سے معذرت کر تے ہیں لیکن سائل کا اصرار ہے کہ وہ آدمی آپ کی سفارش کو رد نہیں کرے گا، شیخ کا دل نرم پڑجاتا ہے اور اپنے سیکرٹری کو اس کے لیے ایک صفحہ لکھنے کی ہدایت کرتے ہیں، ٹائپسٹ وہ صفحہ لے کر ٹائپ کرنے چلا جاتا ہے، ایک اور شخص اپنے آپ کو سامنے لاتا ہے، شیخ کی پیشانی کو بوسہ دیتا ہے، پھر کچھ سوالات کرتا ہے، شیخ جس کے مسلسل جوابات دیتے جاتے ہیں اور وہ مسائل پوچھتا جاتا ہے، حتیٰ کہ شیخ اس کو مطمئن کر دیتے ہیں، آخر کار یہ مکالمے بھی ختم ہوجاتے ہیں، شیخ جزیرہ کی ٹیم کی طرف متوجہ ہو تے ہیں، رسمی بات چیت اور حال احوال کا ذکر ہوتا ہے، گویا کہ شیخ الجزیرہ سے عرصہ دراز سے متعارف ہیں، آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ حسب منشا گفتگو شروع فرمائیے، شیخ فرماتے ہیں کہ جو آپ سوال کرنا چاہتے ہیں کھل کر کریں اور یہاں کوئی تنگی اور تکلف محسوس نہ کریں (شیخ کے بارے میں ہماری توقع درست ثابت
|