کے لیے ایک ایسا خسارہ ہے جس کی تلافی ناممکن دکھائی دیتی ہے، شیخ کو عوام اور خواص دونوں طبقوں میں ایک خصوصی مقام حاصل تھا، جو احترام اور اکرام شیخ کے حصے میں آیا وہ اس کے مستحق تھے، شیخ نے اپنی زندگی اس انداز میں گزاری کہ آپ کی زندگی کے اطوار ہمیں سلف صالحین کی زندگیوں کی یاد دلادیتے ہیں، آپ بیک وقت علم وعمل، اخلاص اور تقویٰ، ورع اور پرہیز گاری میں ہم سب سے زیادہ ممتاز حیثیت کے حامل تھے، اللہ تعالیٰ شیخ کو جزائے خیر عطا فرمائے، ان کی عقبیٰ کو کامیاب کرے اور ان کو اپنی رحمت کے دامن میں پناہ دے۔
ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، مشیر برائے خادم حرمین شریفین کا بیان:
سماحۃ الشیخ رحمہ اللہ علم، زہد، تقویٰ اورنیکی سے محبت میں ناقابل تسخیر چٹان ثابت ہوئے، عالم باعمل صالحین کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ہمارے شیخ رحمہ اللہ کی زندگی علماء سلف کی زندہ مثال تھی، وہ اپنے دور کے ایسے امام تھے جنہوں نے مسلمانوں میں اسلام سے محبت، علم کی رغبت اور عمل صالح کے شوق کو فروازاں کردیاتھا۔
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیزبن عبداللہ آل الشیخ، مفتی اعظم فرماتے ہیں :
سماحۃ الشیخ کا شمار اہل علم وفضل اور وسیع الظرف شخصیات میں ہوتا تھا، آپ اپنی وسعت علمی اور فقہی بصیرت کے باوجود انتہائی متحمل مزاج واقع ہوئے تھے، ہم نے آپ کے علم وفضل اور تعصب سے خالی بصیرت سے بہت کچھ سیکھا ہے، آپ جب کبھی کوئی فتویٰ دیتے یا کسی رائے کا اظہار فرماتے اور پھر حق کو اپنی رائے کے خلاف پاتے تو اپنی رائے سے رجوع کر نے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔
الشیخ صالح بن محمد اللحیدان، صدر سپریم کونسل آف قضاء، فرماتے ہیں :
شیخ ابن باز علماء سلف صالحین کا ایک بہترین نمونہ تھے، مختلف دینی علوم عمل اور تقویٰ وپرہیز گاری میں ایک اعلیٰ مثال تھے، بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس دور میں مجھے کوئی ایسا عالم دکھائی نہیں دیتا جو ان تمام صفات سے متصف ہو، اس لیے آپ کی وفات بلاشک موجودہ زمانے کا ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے جس کے اثرات کئی سال تک اس امت پر محیط
|