Maktaba Wahhabi

328 - 400
میں حیرت انگیز حد تک محتاجوں کی خبر گیری کا جذبہ تھا، طائف میں ہم ان کے پڑوسی بھی رہے، ہم دیکھا کرتے کہ ان کا گھر ہر وقت مہمانوں اور زائرین سے بھرا رہتا، ان میں کچھ علمی پیاس بجھانے کے لیے آیا کر تے اور کچھ مادی مشکلات حل کرنے کے لیے، لیکن ہمیں تعجب ہوتا کہ اتنی بڑی تعداد میں آنے والے ضرورت مندوں کو دیکھ کر نہ آپ کی پیشانی پر بل پڑتے اور نہ ہی آپ پریشانی کا اظہار کرتے بلکہ ہر ایک سے اس طرح ملاقات کرتے گویا کہ وہی اکیلا ان کا مہمان ہے، اب ہماری آنکھیں ان جیسا علم وعمل کا پہاڑاور جودوسخا کا پیکر کہاں تلاش کرسکیں گی۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی، قطر یونیورسٹی کا بیان: آج عالم اسلام نے علم وعمل کے آسماں کو الوداع کردیا، سماحۃ الشیخ علم کے پہاڑ، فقہ کے سمندر، ہدایت کے امام، دین کا ایک اہم ستون سمجھے جاتے تھے، شیخ رحمہ اللہ محض اپنے بے پناہ علم ہی کی وجہ سے مرجع الخلائق نہیں تھے بلکہ ان کی ایمانی غیرت امت کے مسائل پر ان کی فکر مسلمانوں کے غم میں ان کی شمولیت، ان کے حسن اخلاق، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کی عزت، چند ایک مسائل میں اختلاف رائے کے باوجود اہل علم کی قدر ومنزلت نے انہیں ہر ایک کی نظر میں محبوب بنا دیا تھا، امت مسلمہ میں کوئی شخص ایسا نہیں جو شیخ کو ناپسند کرتا ہو۔ محض فاسد عقیدے اور بدطینت فطرت کا حامل فرد ہی شیخ کے ساتھ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرسکتا ہے۔ میری اپنی تصانیف، خصوصاً الحلال والحرام فی الاسلام کی کئی جزئیات سے شیخ رحمہ اللہ اختلاف رکھتے تھے، لیکن اس کے باجود انہوں نے میری اس کتاب کو انتہائی اہمیت دی اور سعودی عرب کی مارکیٹ میں اس کو فروخت کرنے کی اجازت بھی دی۔ صدر حسنی مبارک، مصر: شیخ رحمہ اللہ کی وفات نہ صرف سعودی عرب کے لیے بلکہ سارے عالم اسلام کے لیے ایک ایسا نقصان ہے جس کی تلافی مستقبل قریب میں ناممکن دکھائی دیتی ہے، موجودہ دور میں شیخ رحمہ اللہ علوم دینیہ، اسلام اور مسلمانوں کی نمایاں پہچان سمجھے جاتے تھے۔
Flag Counter