کی عمر ستاسی برس ہو لیکن اس پیرانہ سالی کے باوجود سب سے پہلے درس گا ہ میں تشریف لاتے اور باوجود اس کے کہ آپ کے دروس مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر ہوتے۔بغیر کسی اکتاہٹ کے اور تھکاوٹ ظاہر کیے بغیر حاضرین کی کثیر تعداد کے باوجود ان دینی، علمی اور دعوتی وروحانی مجالس ومحافل میں آپ کا فیض جاری رہتا، یہ آـپ کا ہی خاصہ تھا وگرنہ عام حالات میں یہ ناممکن تھا۔
ایک دوسرا طالب علم جو شیخ کے دروس میں 1400ھ سے شامل ہوا تھا تعجب بھر ے انداز میں اپنے استاذ محترم کا تذکرہ کرتا ہے کہ ہم طلبا کی جماعت جواُن مجالس میں آرام سے بیٹھے رہتے اور خاموش سنتے رہتے مگر اس کے باوجود ہمارے اوپر تھکاوٹ ظاہر ہونے لگتی، حتی کہ بعض اوقات صبر کادامن چھوٹ جاتا مگر شیخ بحر ذخار کی طرح کبھی دو اور کبھی مسلسل تین گھنٹے تک مسائل کی تشریح فرماتے رہتے۔ تھکاوٹ قریب بھی نہ پھٹکتی، ایک کے بعد دوسری کتاب شامل درس ہو جاتی مگر شیخ رواں دواں مسلسل بغیر کسی اکتاہٹ کے یہ سلسلہ جاری رکھتے۔
وزارت شؤن اسلامیہ سے ابوعبد العزیز شیخ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دروس ہمیشہ جاری رہتے، ان میں انقطاع اس وقت ہوتا جب شیخ سفر میں ہوتے یاپھر کبھی بیمار ہو جاتے۔ جمعرات کی فجر کے بعد ہونے والا درس مسلسل تین تین گھنٹے تک جاری رہتا مگر شیخ کا علم ختم نہ ہوتا اور ہماری پیاس نہ بجھتی، مگر دیگر مصروفیات کی وجہ سے شیخ کودرس ختم کرنا پڑتا اور آپ فرماتے: ’’اگر میرے دیگر مشاغل نہ ہو تے تو ظہر تک تمہارے ساتھ بیٹھتا۔‘‘
مکالمہ نمبر 7
متفرقات:
اس ملاقات میں شیخ کے طلاب سے ان کے بارے میں کچھ ایسے احساسات وخیالات بھی سامنے آئے جن کو ایک ایسے عنوان کے تحت اکٹھا بیان نہیں کیا جاسکتا، اس لیے متفرقات کے عنوان سے یہ خیالات واحساسات آپ کے سامنے رکھے جارہے ہیں۔ ایک شاگر اگر
|