متن پڑھتا اور آپ خاموش مؤدب سنتے رہتے، پھر انتہائی منفرد انداز میں اس کی شرح فرماتے کبھی اس سے سوال کرتے کبھی اس سے پوچھتے اور یوں مسائل بیان ہوتے چلے جاتے، سیرحاصل محققانہ انداز، فہمِ مسائل میں تشنگی باقی نہ رہتی، اور آپ کا عالمانہ انداز یوں محسوس ہوتا جیسے علم وتحقیق کے موتی بکھیر رہے ہیں اور طالب اپنے دامنوں میں سمیٹ رہے ہیں۔ یوں ان نورانی محافل کا سلسلہ روزانہ اور مختلف ہائے اوقات میں جاری وساری رہتا، شاذونادر ہی ان میں ناغہ ہوتا حالانکہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کثیر المشاغل اور انتہائی مصروف انسان تھے۔
مختلف موضوعات پر مبنی یہ دروس کبھی کسی کتاب کی شرح اورکبھی کسی کی قراء ت، یوں تفسیر سے حدیث اور حدیث سے عقیدہ اور عقیدے سے سیرت اور دیگر کئی موضوعات وعنوانات آپ کے روزمرہ دروس کا حصہ ہوتے، کبھی درس فجر کے وقت ہورہا ہوتا، کبھی مغرب کے بعد اور کبھی ظہر کے بعد، مختلف ایام میں مختلف وقتوں میں دروس کا یہ سلسلہ اور ان میں بغیر کسی تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے شیح ابن باز رحمہ اللہ اپنا فیض جاری وساری فرمارہے ہوتے۔
شیخ کے شاگر رشید برادر عبد اللہ العتیبی انتہائی تعجب بھرے انداز میں کہتے ہیں کہ ان دروس میں شیخ کی حاضری اورپھر اس قدر مصروفیات کے باوجود وقت نکالنا اوربلاناغہ اور بغیر کسی انقطاع کے یہ پروگرام جاری رکھنا آپ کی علم دوستی اورعظیم مجاہدے کے علامت ہے۔ میں کئی سال تک شیخ کے دروس میں شامل ہوتا رہا، مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان دروس میں صرف ایک مرتبہ انقطاع ہوا تھا اوریہ بھی اس وقت جب شیخ کی بائیں ٹانگ میں انتہائی تکلیف تھی لیکن اللہ کے فضل سے شفا یابی کے بعد پھریہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ ایک جمعرات کی صبح ڈھائی گھنٹے درس جاری رہا تو آپ فرمانے لگے: اگر میری دیگر مصروفیات نہ ہوں تو میں ظہر تک یہ درس رکھتا اور اپنے عزیز طلبا کے ساتھ بیٹھتا۔
ایک دوسرے ساتھی اسی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے استاذ محترم کو اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وافر مقدار میں شوق وجذبہ عطا فرمایا گیا تھا، وہ آدمی جس
|