متبرعین کو نہ تو ان کے رقوم لوٹا ئے جائیں اور نہ ہی انہیں کسی قسم کے منافع یا شیئرز دیے جائیں ؛ چونکہ ان کا مقصد کسی طرح کے دنیوی منافع کا حصول نہیں،وہ تو صرف محتاجوں کا تعاون کرکے اللہ تعالیٰ کے ثواب کا حصول چاہتے ہیں اس لیے وہ لوگ اللہ کے اس فرمان: ﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدہ:2)....’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں آپس میں تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دو۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد:’’ اللہ تعالیٰ بندہ کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں کوشاں رہتا ہے‘‘ کے مصداق ہیں۔
یہ انشورنس کا مسئلہ بالکل واضح ہے لیکن کچھ ادارے اور کمپنیاں بعد میں حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے لگی ہیں اور انہوں نے حرام تجارتی بیمہ کا امدادی بیمہ نام دے دیا ہے، لوگوں کو فریب میں مبتلا کرنے اور اپنی کمپنیوں کی پبلیسٹی اور اس کے جواز کی نسبت کبار علما کی علمی کمیٹی کی طرف کردی ہے، جبکہ یہ بورڈ اس سے بالکل بری ہے چونکہ اس کی قرارداد میں دونوں (یعنی تجارتی اور امدادی انشورنس )کے مابین فرق واضح طور پر موجود ہے، یہ الگ بات ہے کہ نام کی تبدیلی سے حقیقت نہیں بدلتی ہے اور اسی فریب کا پردہ چاک کرنے اور کذب وافتراء کی دیواریں منہدم کرکے لوگوں کے سامنے انشورنس کی صحیح تصویر پیش کرنے کے لیے کبارِ علما کا یہ بیان صادر ہوا ہے۔
بینک سے قرض لے کر بنائی گئی عمارت کے وقف کا حکم
سوال:....کیا زرعی ترقیاتی فنڈسے قرض لے کر بنائی گئی عمارت کو وقف کرنا درست ہے جبکہ وہ ہمیشہ کے لیے بینک کا رہن ہو؟
جواب:....اس مسئلہ میں علما کے مابین اختلاف ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے مسئلے پر ہے کہ اَیاقبضہ کے بغیر رہن لازم آتا ہے یانہیں۔ جن کے یہاں بلا قبضہ کے لازم نہیں آتا ان کے نزدیک وقف صحیح ہے اور وہ تمام تصرفات بھی جو ملکیت بدل سکیں، کیونکہ رہن پر قبضہ نہیں ہے، جن کے یہاں بلاقبضہ کے بھی رہن لازم ہو جاتا ہے ان کے نزدیک نہ وقف صحیح
|