جامعہ ابن تیمیہ ہند:
اگر کسی ملک یا علاقہ کے بارے میں انہیں معلوم ہوتا کہ وہاں دینی مدرسہ کی ضرورت ہے اور وہاں ان کا کوئی شاگرد ہوتا، تو اسے خط لکھتے، اسے کام پر ابھارتے اور اسے مدد کرنے کا وعدہ کرتے۔
جامعہ ابن تیمیہ، مدینۃ السلام بہار کی تاسیس بھی حضرت الشیخ کی اس کوشش کا نتیجہ ہے، اس علاقہ کے اہل حدیث حضرات نے شیخ کو لکھا کہ یہ علاقہ ایک سلفی جامعہ کا شدید محتاج ہے اور آپ کے شاگرد محمد لقمان سلفی یہ کام کر سکتے ہیں، آپ انہیں اس کا مکلف بنائیں، انہوں نے مجھے بلایا اوراس کام کو کرنے کا مشورہ دیا بلکہ حکم دیا اور تعاون کا وعدہ کیا، چنانچہ حضرت الشیخ اور مجھ ناچیز کی مشترکہ کوششوں سے اس جامعہ کی بنیاد 1409ھ میں رکھی گئی اور حسب وعدہ انہوں نے میری ایسی مدد کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ جامعہ برصغیر پاک و ہندکے دینی جامعات کی صف اول میں آگیا، شروع میں اس کا نام مرکز العلوم الاسلامیہ رکھا گیا، لیکن چند ہی سالوں میں اس ترقی پذیر جامعہ کا نام تبدیل کر نے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی، چنانچہ حضرت الشیخ کی رائے اور ان کی منظوری سے اس کا نام (جامعہ ابن تیمیہ) رکھ دیا گیا اور آج سے تقریباً پانچ سال قبل میں نے اسی جامعہ میں ’’ اسلامک ریسرچ سینٹر ‘‘ قائم کیا، تاکہ وہاں سے قرآن وسنت کی نشر واشاعت کے لیے کتابیں تیار کی جائیں، اللہ کا فضل ہے کہ اس وقت اس مرکز میں چھ ریسرچ ورکرس کام کررہے ہیں، میں نے حضرت الشیخ کی یاد گار کے طور پر اس کانام (مرکز العلامہ عبدالعزیز بن باز للدراسات الاسلامیۃ) رکھا اور ان سے منظوری مانگی تو کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا کہ (الامر فیہ سۃ) یعنی ٹھیک ہے، اس کی گنجائش ملتی ہے، مجھے خوشی ہے کہ غالباً میں ان کا واحد شاگرد ہوں جس نے ان کی یاد کو جریدہ عالم پر دوام دینے کے لیے یہ ریسرچ سینٹر قائم کیا ہے اور میرے بچوں نے مجھ سے عہد کیا ہے کہ وہ میرے بعد جامعہ اور مرکز دونوں کی آبیاری کرتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ
|