Maktaba Wahhabi

52 - 400
ذرا غور فرمائیں کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے کس طرح اس آدمی کے بارے میں اپنے حسنِ ظن کا اظہار کیا۔ کیا آج کے علما بھی اس خوبی سے مزین ہیں ؟! (11)علامہ ابن باز رحمہ اللہ بڑے مہمان نواز تھے: علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی خوبیوں میں سے ایک عظیم خوبی یہ تھی کہ وہ بڑے مہمان نواز تھے۔ ان کا گھر ہر اجنبی کے لیے کھلا رہتا اور روزانہ اجنبی مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اپنے گھر کام کرنے والوں کو یہ تاکید کر رکھی تھی کہ کسی بھی اجنبی کو مہمان خانے میں آنے سے نہ روکا جائے اور جو بھی آئے اسے کھلائے بغیر نہ جانے دیا جائے۔ حتیٰ کہ کئی ٹیکسی ڈرائیور اور قرب وجوار میں کام کرنے والے مزدور بھی علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے دستر خوان سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ریاض ہو یا مکہ یا طائف، علامہ ابن باز رحمہ اللہ جہاں کہیں بھی ہوتے،آپ کا گھر نئے پرانے اور اجنبی مہمانوں کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا۔ ڈاکٹر ناصر بن مسفر الزہرانی کہتے ہیں کہ سن 1417 ہجری کا واقعہ ہے، جب شیخ ابن باز رحمہ اللہ مکہ سے طائف واپس آئے تو اپنے گھر کا دروازہ عادت کے مطابق کھولنے کے لیے کہا۔ شروع کے ایام میں فقراء ومساکین اور مہمانوں کی آمد نہیں ہوئی تو اپنے آدمیوں سے پوچھنے لگے: کیا بات ہے کہ لوگ نہیں آ رہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ تم لوگوں نے آنے والوں پر پابندی عائد کر دی ہے اور گھر میں داخل ہونے سے منع کر دیا ہے یا کوئی اور سبب ہے؟! آپ کو بتلایا گیا کہ اکثر لوگوں کو ابھی آپ کی آمد کا علم نہیں ہے اور چند ایک کو معلوم بھی ہے تو وہ یہ سوچ کر نہیں آتے ہیں کہ آپ تھکے ہارے مکہ سے آئے ہیں، ابھی آپ کو آرام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے ان سے فرمایا: جاؤ اور لوگوں کو آگاہ کر دو کہ وہ ہمارے گھر تشریف لایا کریں، نیز پڑوسیوں کو بھی میری طرف سے دعوت دے دو۔ [1] علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے ڈرائیور شاہین عبد الرحمن اور آپ کے باورچی نصیر احمد خلیفہ کا بیان ہے کہ ایک روز علامہ ابن باز رحمہ اللہ مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں داخل ہوئے تو دستور کے
Flag Counter