Maktaba Wahhabi

324 - 400
پرنس مقرن بن عبدالعزیز کا بیان: شیخ کی حیثیت ہمارے لیے ایک مشفق باپ اور مہربان مربی کی تھی، جنہوں نے ہماری زندگیوں پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں، انہوں نے اپنی زندگی دعوت وتبلیغ اور خدمت خلق کے لیے وقف کردی تھی، ان کی موت امت مسلمہ کے لیے زبردست نقصان ہے۔ پرنسس نورہ بنت محمد بن عبدالعزیز نے کہا : شیخ نے دنیا کے لالچ اور طمع کے بغیر اپنا کام جاری رکھا اور سخت ازمائشی موقعوں پربھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا کہ جہاں بہت سے علماء کے قدم بھی ڈگمگا جاتے ہیں، اکثر مشکل موقعوں پر ہم شیخ سے رجوع کرتے کیونکہ ان کے جوابات ہمارے لیے باعث تسکین ہوتے تھے، شیخ کے سامنے حصول دنیا کے زبر دست مواقع تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی ذات کے لیے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ پرنس مشعل بن عبدالعزیز کا بیان: میں نے شیخ ابن باز کو قریب سے دیکھا، انہیں ایک صالح، متقی اور عجزوانکساری کا پیکر پایا، جنہوں نے اپنے ملک اور عالم اسلام کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں، ان کی موت سے عالم اسلام کو جونقصان ہوا ہے وہ تو ہوا لیکن ذاتی طور پر میرے لیے ان کی موت انتہائی تکلیف دہ اور نقصان عظیم ہے۔ پرنس نورہ بنت عبدالعزیز جلویٰ کہتی ہیں : شیخ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے اور حتی الامکان کے مسائل حل کرنے کی فکر میں رہتے، شیخ کی زبان سے علم وعرفان کے ایسے چشمے پھوٹتے جن سے ساری دنیا سیراب ہوا کرتی۔ معالی الشیخ صالح بن عبدالعزیز بن محمد آل شیخ، وزیر برائے اسلامی امور، اوقاف ودعوت، سعودی عرب، فرماتے ہیں : شیخ رحمہ اللہ کی وفات ساری امت کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے خصوصاً سعودی عرب
Flag Counter