کے مطابق اسے وطن بھیجنا لازم تھا۔ اس کے پاس کئی ایک بچے تھے۔ جامعہ سے ٹکٹ وغیرہ کے جو پیسے اس کے حق میں بنتے تھے، وہ اس کی ضروریات کی تکمیل کے لیے ناکافی تھے۔ جامعہ سے دیے جانے والے پیسے سے وہ اپنے لیے صرف ایک ٹکٹ ہی خرید سکتا تھا، اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ چند لوگوں نے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ اگر آپ جامعہ کی مسجد میں اساتذہ، اسٹاف اور طلبہ کو اس افریقی طالبعلم کے تعاون پر ابھاریں گے تو ممکن ہے کہ اس کے حق میں کچھ پیسے اکٹھے ہو جائیں گے اور اس سے طالبعلم کا کام چل جائے گا۔ نماز کے بعد حاضرین اس انتظار میں تھے کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ اب افریقی طالبعلم کے تعاون کے بارے میں کچھ کہیں گے مگر آپ نے کچھ نہیں کہا۔ اس بات سے مشورہ دینے والوں کو قدرے تعجب ہوا۔ انھوں نے نماز کے بعد علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آخر آپ نے اس افریقی طالبعلم کے تعاون کے لیے مسجد میں اعلان کیوں نہیں کیا، یا آپ اعلان کرنا بھول گئے؟! علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے ان کے جواب میں کہا:
’’بات دراصل یہ ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ طلبہ اور اساتذہ اور دیگر اسٹاف کے سامنے اس طالبعلم کے تعاون کے لیے چندہ اکٹھا کیا جائے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے طالبعلم کو ذہنی تکلیف ہو سکتی ہے۔ نیز اس کے وطن کے طلبہ کے سامنے اسے سبکی ہو سکتی ہے۔ اس طرح اس کے جذبات کے مجروح ہونے کا خدشہ ہے۔ اسی لیے میں نے مسجد میں اس کے لیے تعاون کا اعلان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔‘‘
پوچھا گیا کہ پھر اس طالبعلم کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟
علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک تدبیر سوچی ہے۔ چنانچہ آپ نے اسی وقت شہزادہ سلطان بن عبد العزیز حفظہ اللہ کو افریقی طالبعلم کے حالات کے بارے میں لکھ بھیجا اور جواباً بارہ ہزار ریال کا چیک شہزادہ موصوف کی طرف سے موصول بھی ہو گیا۔ اس زمانے میں بارہ ہزار ایک بھاری مبلغ تھا۔ افریقی طالبعلم نے یہ رقم لے کر
|