Maktaba Wahhabi

57 - 400
علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی ایسی خوبی ہے جس سے اکثر علماء محروم ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خادموں اور نوکروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتے وقت جس بات کی اپنی امت کو وصیت فرمائی ہے اس میں ایک نماز اور دوسری خادموں اور نوکروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔ علامہ ابن باز رحمہ اللہ اس وصیت کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ آپ نے ہر موقع پر اپنے نوکروں کی عزت افزائی فرمائی ہے۔ مجھے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے کئی ایک کے ساتھ رہنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ مگر میں نے دیکھا کہ وہ رات دن ابن باز رحمہ اللہ کا نام لیتے ہیں مگر نوکروں اور خادموں کے ساتھ ان کا رویہ اتنا خراب ہوتا کہ کبھی کبھی محسوس ہوتا کہ یہ آدمی خواہ مخواہ اپنے آپ کو ابن باز رحمہ اللہ کا شاگرد بتلاتا ہے اور اس کا برملا اظہار بھی کرتا ہے، اس کے منہ سے یہ شوبھا نہیں دیتا کہ یہ اپنے آپ کو علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا شاگرد بتلائے۔ یہ اس قابل ہے ہی نہیں !! کہتے ہیں کہ اگر گھر کا نوکر اپنے مالک کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کی شہادت دے تو یہ واقعی مالک کے لیے فخر کی بات ہے۔ ظاہر ہے کہ رات دن گھر کے نوکروں کا ان کے مالکان کے ساتھ سابقہ پڑتا رہتا ہے۔ وہ مالکان کی حقیقت اچھی طرح جانتے ہیں۔ آئیے! ذرا ہم علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے خدام اور نوکروں سے آپ کے بارے میں جانتے ہیں۔ ماہنامہ صراط مستقیم لندن اگست وستمبر 1999ء کے حوالے سے علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے ذاتی ملازمین کا تاثر یہاں بیان کرتا ہوں۔ ماہنامہ صراط مستقیم لکھتا ہے: ’’شیخ رحمہ اللہ کی وفات کی خبر آناً فاناً سعودی عرب کے ہر گوشے میں پھیل گئی اور آپ کے عقیدت مند طلبہ، علما، عوام اوربچے بوڑھے سارے شیخ کے گھر کے آس پاس جمع ہونے لگے۔ ہر ایک کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں تھے، ہر کوئی کسی گوشے میں محوِ آہ وفغاں کھڑا نظر آتا تھا۔ ان لوگوں میں ایک لمبی سفید ڈاڑھی والے معمر بزرگ بھی تھے، جن کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے تھے۔ یہ شیخ رحمہ اللہ کے گھریلو امور کے نگہبان شیخ حسین اسماعیل ہیں، جو گزشتہ بائیس سال
Flag Counter