Maktaba Wahhabi

58 - 400
سے شیخ کی خدمت میں رہ رہے تھے۔ جب ان سے شیخ کے ساتھ گزاری ہوئی زندگی کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انتہائی گلوگیر آواز میں انھوں نے بتایا کہ میں نے 22 سال شیخ رحمہ اللہ کی رفاقت میں گزارے ہیں، شیخ کو میں نے جس قدر قریب سے دیکھا ہے اسی قدر میرے اندر برائی سے نفرت اور نیکی سے محبت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آپ کا گھر گویا ایک عام مہمان خانہ تھا، ہر کسی کو کھلی اجازت تھی، آپ کے پاس نہ صرف سعودی عرب بلکہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور دنیا کے دیگر تمام گوشوں سے مہمان آتے اور اپنی مشکلات کا ذکر کرتے، شیخ رحمہ اللہ کی شخصیت ہر ایک کے لیے مشفق اور مہربان باپ کی سی تھی جو ہر ایک کی مشکل کو اس انداز میں حل کرنے کی کوشش کرتے جیسے کہ وہ ان کی اپنی مشکل ہو۔ انتقال سے قبل جب تین دن کے لیے شیخ کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا تو میں نے بھی عیادت کی غرض سے شیخ کی خدمت میں حاضری دی، شیخ کی آواز میں انتہائی نقاہت اور کمزوری کا عنصر نمایاں تھا، جب میں نے صحت کے بارے میں دریافت کیا تو شیخ میری اہلیہ کی صحت کے بارے میں پوچھنے لگے جو اکثر بیمار رہتی ہے۔ شیخ کی دوسروں کی فکرمندی اور خبرگیری کا یہ انداز تھا کہ باوجود آپ شدید بیمار ہونے کے اپنے ملازمین کے اہل خانہ کی بھی فکر رکھتے۔ شیخ رحمہ اللہ کے ذاتی باورچی نصیر احمد خلیفہ نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت نصیب فرمائی کہ میں گزشتہ 14 سال سے شیخ کے لیے کھانا تیار کرتا ر ہا۔ شیخ کی قربت سے نہ صرف مجھے دینی علم حاصل ہوا بلکہ دین پر عمل کی توفیق بھی نصیب ہو گئی۔ شیخ رحمہ اللہ کے لیے قہوہ تیار کرنے والے سلیم نسیم پاکستانی نے انتہائی گلوگیر انداز میں بتایا کہ شیخ کا گھر دن رات مہمانوں سے بھرا رہتا۔ لہٰذا ہمیشہ ہمیں قہوہ تیار رکھنے کا حکم رہتا، یہاں تک کہ شیخ آرام کے لیے تشریف لے جاتے۔ شیخ رحمہ اللہ کا
Flag Counter