Maktaba Wahhabi

316 - 400
حاصل کرنے کے لیے یا اصلاح کی خاطریا تربیت کے لیے یا تعلیمی میدا ن میں خاص ضرورت کی خاطر غصے کا اظہار ضروری ہو جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر علامہ ابن باز رحمہ اللہ کا رویہ کیا ہوتا؟ اس سوال کے جواب میں عبد اللہ العتیبی کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے جب کبھی شیخ ابن باز کے سامنے اللہ کی کتاب یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تردید کسی آدمی کے قول یا قیاس سے کی جاتی تو ہمارے استاذ شدید غصے میں آجاتے اور برداشت نہ کر پاتے۔ اسی طرح شیخ ابن باز سے ایک مرتبہ مسلم شریف کی اس حدیث کے بارے میں کہا گیا جس میں آتا ہے: (( إن أبی وأباک فی النار۔)) ’’میرے اور تمھارے والد دونوں ہی جہنم میں ہیں۔‘‘ دوران شرح کسی طالب علم نے کہا کہ آپ علیہ السلام نے یہ کلمات اس سائل کی تسلی کی خاطر اور اس کا دل رکھنے کے لیے ڈھارس بندھا نے کے لیے کہے تھے۔اس کے علاوہ ان کی کچھ حقیقت نہیں تو شیخ ابن باز شدید غصے کے عالم میں اس طالب علم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد کو عذاب میں ڈال کر اس سائل کا دل دکھا رہے ہیں ؟! اسی طرح تفسیر پڑھا تے ہوئے جب شیخ ابن باز نے کہا: کتابیات یعنی اہل کتاب کی عورتوں سے جو کہ محصنات ہوں ان کے ساتھ نکاح جائز ہے تو کسی طالب علم نے کہا: یا شیخ! بعض صحابہ نے اس سے منع کیا ہے۔ تو علا مہ ابن باز کا چہرہ سرخ ہو گیا اور شدید غصے کے عالم میں اس طالب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: کیا کسی صحابی کے قول سے کتاب سنت کی مخالفت کی جاسکتی ہے؟ اسی طرح برادر العتیبی کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے ایک دوسرے تلمیذابن باز نے کہا: ایک مرتبہ ہمارے شیخ شدید غصے میں آگئے اور یہ غصہ آپ کے پورے جسم سے ظاہر ہو رہا تھا اوریہ اس وقت ہوا جب علامہ ابن باز نے ایک مسئلہ کو کتاب وسنت کی دلیلوں سے واضح کیا تو ایک سائل نے کہا کہ اس مسئلے کے بارے میں فلاں کا قول یہ ہے تو علامہ مرحوم نے فرمایا: اللہ کے کلام کے بعد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد کسی کے قول کی گنجائش
Flag Counter