کا طرز عمل بھی ہے۔ ڈاکٹر ناصر بن مسفر الزہرانی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ چند لوگ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: فضیلۃ الشیخ! آپ دوپہر یا شام کے کھانے کے وقت میں یا دیگر اوقات میں غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور انہی کے ساتھ کھانا بھی تناول فرماتے ہیں۔ آپ کے پاس عرب وعجم سے وی آئی پی مہمان اور زیارت کرنے والے آتے رہتے ہیں، انھیں یہ دیکھ کر قدرے گھٹن محسوس ہوتا ہے، اس لیے ہم لوگوں نے سوچا ہے کہ گھر میں کیوں نہ دو مجلسیں خاص کر دی جائیں ؛ ایک عام آدمیوں کے لیے اور دوسری خاص حضرات کے لیے۔ اور آپ کا کھانا خاص مہمانوں کے ساتھ رکھا جائے؟!
اس سوال کے ختم ہوتے ہی شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس وقت جو کلمات کہے وہ آبِ حیات سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ آپ نے فرمایا:
(( مسکین مسکین صاحب ہذا الرائ، ہذا لم یتلذذ بالجلوس مع المساکین، والأکل مع الفقراء، أنا سأستمر علی ہذا ولیس عندی خصوصیات، والذی یستطیع أن یجلس معی أنا وہؤلاء الفقراء والمساکین یجلس، والذی لا یعجبہ وتأبی نفسہ فلیس مجبورًا علی ذلک۔))
’’مسکین اور کورے عقل کا مالک ہے یہ مشورہ دینے والا، اسے کبھی مسکینوں کے ساتھ بیٹھنے اور غریبوں کے ساتھ کھانا تناول کرنے کی لذت سے آشنائی ہی نہیں ہوئی ہے۔ میں تو جیسا تھا ویسا ہی رہوں گا، میرے نزدیک بڑوں کے لیے کوئی اسپیشل اور خاص مقام نہیں ہے، اس لیے جو میرے اور اِن فقراء ومساکین کے ساتھ بیٹھنے کی سکت رکھتا ہے وہ بیٹھے اور جس کا ضمیر نہیں مانتا اسے کوئی زور زبردستی تو نہیں۔‘‘[1]
|