بلا کر خوش آمدید کہتے، ہمت افزائی کرتے اور اس کے دماغ سے غریب الوطنی اور خویش و اقارب کی جدائی کا اثر زائل کرنے کی کوشش کرتے، میں نے دیکھا کہ وہ ایک لمبے آدمی تھے، جب چلتے تو ان کے آگے پیچھے چلنے والوں کے درمیان ان کا قد نکلاہوا ہوتا، سنجیدگی، متانت اور تواضع غالب رہتی اور ہشاش بشاش نظر آتے اور ان سے ملنے والے تمام طلباء، اساتذہ کرام اور یونیورسٹی کا پورا عملہ نہایت ادب واحترام کے ساتھ ان سے ملتا اور جب کلاس میں عرب وعجم کے بڑے بڑے ائمہ فن سے ہم لوگ علم حاصل کرنے لگے تو میں نے دیکھا کہ وہ سبھی حضرات حضرت الشیخ کے گہرے اور مستحضر عالم کی تعریف کرتے اور کہتے کہ ان کا علم اجتہاد مطلق کے درجہ کا ہے اور یہ کہ وہ کسی ایک فقہی مذہب کے مقلد نہیں ہیں، ان کا منہج ائمہ حدیث کا منہج ہے، وہ ائمہ کرام کا غایت درجہ احترام کرتے ہیں، ان کے اقوال وآراء سے استفادہ کرتے ہیں اور قرآن وسنت کے عظیم سر چشمہ سے بلا واسطہ استفادہ کرتے ہیں، جیسا کہ محدثین کرام کا منہج رہا ہے۔
ان باتوں نے اس وقت میرے چھوٹے سے دل ودماغ میں ان کی محبت بٹھا دی اور یہ خواہش پرورش پانے لگی کہ ان کے دروس ومحاضرات پابندی کے ساتھ سنتا رہوں گا، خاندانی ماحول سے مجھے یہی سبق ملا تھا اور دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ، بہار میں اساتذہ کرام نے ہمیں یہی سبق سکھایا تھا کہ دینی، مذہبی اور علمی تربیت کے لیے ہمارے نمونہ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بعد) ائمہ محدثین اور ان کے خوشہ چیں علمائے عظام ہونے چاہئیں۔
انہی دنوں میرے شیخ علامہ محدث محمد ناصر الدین البانی حفظہ اللہ نے یونیورسٹی ہال میں محدثین کے طریقہ پر ایک لیکچر دیا، حاضرین اس لیکچر سے بہت مستفید ہوئے اور علم حدیث میں ان کے اونچے مقام کی جو شہرت تھی اس سے متعلق سر گوشیاں کرنے لگے، اتنے میں دیکھتا کیا ہوں کہ حضرت الشیخ رحمہ اللہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور اپنے سیکرٹری کی مدد سے سٹیج پر پہنچ گئے اور لیکچر میں بیان کیے گئے بعض علمی امور پر محدثانہ تبصرہ کرنے لگے، کافی دیر بعد جب ان کی بات ختم ہوئی تو محدث محمد ناصر الدین البانی دوبارہ سٹیج پر گئے اورحضرت الشیخ کا شکریہ
|