ہمارے شیخ رحمہ اللہ اپنے پاس موجود مال سے دوسروں کی حاجات پوری کرتے تھے اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ شاعر کے درج ذیل یہ اشعار ان پر کس قدر صادق آتے ہیں :
تَرَاہُ إِذَا مَا جِئْتَہُ مُتَہَلِّلاً
کَأَنَّکَ تُعْطِیہِ الَّذِي أَنْتَ سَائِلُہ
(جب تم اس (محسن)کے پاس آؤگے تو اسے ہنستے چہرے کے ساتھ ہی پاؤگے ؛ گو تم ہی اسے دینے والے ہو جس سے تم نے سوال کیا ہے)
کَرِیمٌ کَرِیمُ الأُمَّہَاتِ مُہَذَّبٌ
تَحْلُبُ کَفَّاہُ النَّدَی وَأَنَامِلُہ
(دراصل وہ پاکیزہ اعمال کا دلدادہ سپوت ہے، اس کی ہتھیلیاں اور انگلیاں شبنم نچوڑتی ہیں یعنی خیر وبھلائی اکٹھا کرتی ہیں )
ہُوَ البَحْرُ مِنْ أَيِّ النَّوَاحِي أَتَیْتَہُ
فَلُجَّتُہُ المَعْرُوفُ وَالجُودُ سَاحِلُہ
(وہ سراپا سمندر ہے چاہے جس کنارے سے بھی آؤ، بھلائی اس کا بھنور اور سخاوت اس کا ساحل ہے)
جَوَادٌ إِذَا مَا جِئْتَ لِلْعُرْفِ طَالِبًا
حَبَاکَ بِمَا تَحْوِي عَلَیْہِ أَنَامِلُہ
(وہ انتہائی سخی ہے، جب تم اس کے پاس کوئی چیز مانگنے کے لیے آؤگے تو اس کا ہاتھ جتنا کچھ اس میں سما سکے گا، دے گا)
وَلَوْ لَمْ یَکُنْ فِي کَفِّہِ غَیْرُ رُوحِہِ
لَجَادَ بِہَا فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ سَائِلُہ
(اور اگر اس کی ہتھیلی میں اس کی روح کے سوا کچھ اور نہ ہو، تب بھی وہ اپنی روح
|