Maktaba Wahhabi

399 - 400
ریاض العلوم میں پڑھنے چلا آیا۔ میرے ساتھ عمر آباد سے دو ساتھی اور بھی آئے تھے۔ ایک میرا ہی ہم نام تھا اور دوسرا تمیم حیدرآبادی۔ دہلی پہنچ کر معلوم ہوا کہ ریاض العلوم میں گرمی کی چھٹیاں ہیں، دو ماہ بعد جامعہ کھلے گا۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس پیسے کم تھے۔ میرے پاس چونکہ ہر وقت ہی اچھا پیسہ رہتا تھا اور آج جبکہ دہلی میں پہنچا تب بھی اتنا پیسہ تھا کہ دو ماہ تک آسانی کے ساتھ کہیں رہ سکتا تھا۔ مگر بہت جلد میرے پیسے بھی ختم ہو گئے۔ اب کیا کیا جائے؟ اور نہ چاہتے ہوئے بھی غلامی کرنی پڑی: میں عمرآباد سے تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے آیا تھا اس لیے گھر جانے سے ڈرتا تھا۔ میں نے عزم کر لیا تھا کہ میں کسی بھی ادارے سے ضرور فارغ ہو کر رہوں گا تاکہ میرے والدین کے جذبات کو ٹھیس نہ لگے۔ ویسے بھی استاذ مکرم مولانا ظفر الحق شاکر (استاذ جامعہ دار السلام عمر آباد) کی نصیحت مجھے بار بار یاد آ رہی تھی جو کہ انھوں نے عمرآباد سے دہلی کے لیے روانہ ہوتے وقت کی تھی: ’’رضوان! میں کہتا ہوں، جامعہ دار السلام چھوڑ کر مت جاؤ، میں تمھیں جانے نہیں دوں گا، چلو کلاس میں پڑھنے کے لیے، دیکھو! تمھاری پیشانی پر میں کامیابی کے آثار دیکھ رہا ہوں، مجھے یقین ہے کہ تم مستقبل میں ایک کامیاب انسان بنوگے، میں نے ہمیشہ تم سے محبت کی ہے، تمھاری صلاحیت کا مجھے اعتراف ہے، میری بات مانو اور جامعہ سے نہ جاؤ اور فراغت تک کی تعلیم حاصل کرلو !!....اور پھر میری ضد اور میرے ہاتھ میں دہلی کا ٹکٹ دیکھ کر کہنے لگے: اب جبکہ تم نے جانے کا قطعی فیصلہ کر ہی لیا ہے تو یادر کھو! اپنے آپ کو برباد مت کرنا، میں تمھاری پیشانی پر کامیابی کے آثار دیکھ رہا ہوں !!‘‘ دہلی میں میرے دونوں دوست رضوان احمد اور تمیم حیدر آبادی مکان مالک کے ساتھ راجندر نگر میں کام کے لیے جانے لگے۔ چونکہ انھوں نے میرے بارے میں جان رکھا تھا کہ
Flag Counter