خود کو باز رکھنا چاہیے۔ ہاں، میں آج بھی اور پہلے بھی مولانا وحید الدین خان سے ان کے کئی ایک نظریات میں دلیل کے ساتھ اختلاف رکھتا ہوں۔ ان کو خط لکھنا یا ان کی کتابیں مطالعہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ان کی ساری باتیں قبول کر لی جائیں۔ جو باتیں دلیل کی کسوٹی سے اصول کے مطابق ہوں انھیں قبول کرنے میں حرج نہیں، البتہ جو اصول کے مطابق نہ ہوں انھیں چھوڑ دیا جائے۔ بحث ومباحثہ علم اور دلیل کی بنیاد پر ہو تو یہ مستحسن امر ہے؛ البتہ ویسے ہی سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے کسی پر لب کشائی کرنا ناکام آدمی کی واضح دلیل ہے۔
جمعیۃ البر الاسلامیہ علی گڑھ کے انعامی مقابلے میں حصہ:
سن 1995ء میں جمعیۃ البر الاسلامیہ علی گڑھ سے کل ہند تحریر انعامی مقابلے کا اعلان ہوا۔ میں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ میرے مقالہ کا عنوان تھا:
’’حجیت حدیث پر شکوک وشبہات، ایک تنقیدی جائزہ۔‘‘
میں جن دنوں یہ مقالہ لکھ رہا تھا میرے کئی ایک ساتھی مذاق اڑا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ لگتا ہے رضوان ہی کو اول درجہ ملے گا۔ مگر آج میرے وہ دوست جہاں کہیں ہوں، اگر شوگر کے مرض سے محفوظ ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کے منہ میں گھی شکر ڈالے۔ ان کا مذاق یقین میں تبدیل ہو گیا اور میرا مقالہ پورے ہندستان میں اول نمبر پر آ گیا اور ناظم جامعہ دارالسلام عمر آباد مولانا خلیل الرحمن عمری حفظہ اللہ نے مجھے بلا کر آٹھ روپے کا انعام دیا جو علی گڑھ سے آیا تھا۔
اس قسم کے انعامی مقابلے کی بڑی اہمیت ہے۔ اس سے طلبہ میں لکھنے پڑھنے اور اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے، اس لیے بڑے بڑے اداروں کو سالانہ اس قسم کا ثقافتی پروگرام ضرور رکھنا چاہیے اور اپنے بجٹ میں سے اس پروگرام کے لیے بھی کچھ رقم خاص کر دینی چاہیے۔
جامعہ ریاض العلوم دہلی میں :
جامعہ دار السلام عمر آباد سے کسی وجہ سے تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے 7مئی 1996ء کو دہلی
|