Maktaba Wahhabi

397 - 400
انداز میں چھوٹی چھوٹی تحریریں لکھنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ پھر بعد میں جب ریاض العلوم دہلی میں ماہنامہ الاسلام کی کتابت کا موقع ملا تو میرے قلم کو مہمیز لگنے لگی اور میں روزانہ کچھ نہ کچھ لکھنے کا عادی ہو گیا۔ ڈائری وغیرہ لکھتے وقت میرے چند ساتھی اسے فضول کام سمجھتے تھے مگر وہی کام میرے لیے بعد میں چل کر ہیرے سے زیادہ قیمتی ثابت ہوا۔ علمائے کرام سے خط وکتابت: میں نے عمرآباد کے تعلیمی زمانے ہی میں کسی آدمی کی تحریر پڑھی تھی جس میں لکھا تھا کہ ہر طالب علم کو اپنے میدان کے کسی کامیاب آدمی سے رشتہ جوڑ لینا چاہیے اور اس سے تعلقات پیدا کر کے اس کی ترقی کا راز معلوم کرنا چاہیے اور اسے اپنی زندگی میں بطورِ نمونہ ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے۔ میں نے اس کے پیش نظر سن 1995ء سے باضابطہ طور پر مولانا وحید الدین خان کو خط لکھنا شروع کر دیا تھا۔ میرے پہلے خط کا جواب انھوں نے جو دیا تھا اس کا مضمون کچھ اس طرح تھا: ’’علم یا کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کا واحد راستہ محنت ہے۔ اس دنیا کا ایک ہی اصول ہے؛ جتنی زیادہ محنت اتنی زیادہ کامیابی۔‘‘ ایک دوسرے خط کے جواب کا مضمون یہ تھا: ’’پہاڑی چشمہ اپنا راستہ خود بناتا ہے، اس کا تیز بہاؤ اس بات کا ضامن ہے کہ زمین خود بخود اسے راہ دیتی چلی جاتی ہے، اس لیے آپ اپنے پسندیدہ کام میں محنت شروع کر دیجئے، جس رفتار سے آپ کی محنت ہوگی اسی رفتار سے منزل قریب آتی جائے گی۔‘‘ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بہت سے طلبہ مولانا وحید الدین خان یا ان جیسے بہت سارے علما پر اپنے اساتذہ کی سنی سنائی باتوں کو لے کر بلا تحقیق لب کشائی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ طلبہ کو تعلیمی زندگی میں تنقید سے زیادہ تعمیر کی فکر ہونی چاہئے۔ بڑے لوگوں پر کلام سے
Flag Counter