یہ سن 1990ء کی بات ہے۔ مضمون لکھنے پر مولانا کاتب عبید اللہ اصلاحی حفظہ اللہ نے ابھارا تھا۔ ان دنوں وہ کسی اخبار میں کتابت کا کام بھی کرتے تھے۔ میں نے انھیں دجال کے حوالے سے مضمون لکھ کر دیا تو وہ بڑے خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس مضمون کو اخبار میں شائع کرنے کے لیے دوں گا۔ وہ مضمون چھپا یا نہیں، مجھے معلوم نہیں۔ میں نے ایک دو مرتبہ موصوف سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ چھپ جائے گا۔
جب میں سن 1992ء میں جامعہ دار السلام عمرآباد پہنچا تو مطالعے کا کچھ زیادہ ہی شوق تھا۔ درسی کتابیں معمول کے مطابق پڑھ کر مطالعے میں مشغول ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ روزانہ میں سو صفحات سے زائد مطالعہ کر لیتا تو مجھے لگتا کہ آج میں نے مطالعہ کیا ہے۔ میں بارہا اپنے اساتذہ اور سنیئر ساتھیوں سے سنا کرتا تھا کہ اتنا پڑھو کہ لکھنے کے لیے تمھارا قلم بے تاب ہو جائے۔ چنانچہ میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرتا۔ پھر میں نے یومیہ ڈائری لکھنا شروع کر دی۔ جو کچھ بھی میں دن بھر کرتا اسے رات سونے سے چند لمحہ قبل ڈائری پر منتقل کر دیتا۔ آج بھی وہ ڈائریاں میرے پاس موجود ہیں۔ میں جب ان کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے ڈائری لکھنے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابھی یہ الفاظ لکھ رہا ہوں اور بچپن میں میری لکھی ہوئی ڈائریاں میرے داہنے جانب ٹیبل پر رکھی ہوئی ہیں۔ بچپن تو واپس نہیں آ سکتا مگر گاہے گاہے یہ ڈائریاں پڑھ کر بچپن کی سنہری یادوں میں کھو جاتا ہوں۔مجھے یہ ڈائریاں دیکھ کر لگتا ہے کہ اگر میں ڈائری لکھنے کی عادت نہیں ڈالتا تو آج میں لکھنے کے قابل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لیے میں یہاں اپنے ساتھیوں سے کہوں گا کہ اگر آپ کو لکھنے کا شوق ہے تو پابندی سے ڈائری لکھیں، اس سے آپ کو نیا نیا تجربہ ملے گا اور ایک دن آئے گا کہ پورے مضمون کو بآسانی اور ترتیب سے آپ لکھنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو جائیں گے۔
نیز مطالعہ کے دوران مجھے جو بھی اچھا جملہ ملتا یا جس بات کو اہم سمجھتا، مطالعہ کی کاپی پر قلمبند کر لیتا جو آج بھی موجود ہے۔ خاص کر مولانا وحید الدین خان حفظہ اللہ کا ماہنامہ ’’الرسالہ‘‘کا پابندی سے مطالعہ کرتا، کیونکہ ان کا سفرنامہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا اور انھی کے
|