Maktaba Wahhabi

395 - 400
بڑی مشکل سے اسے یاد کیا اور جب ہلال کو سنانے لگا تو جا بجا اٹک اٹک جایا کرتا تھا۔ میں نے قرآن کریم کی جتنی سورتیں یاد کی تھیں ان میں سب سے بھاری سورۂ محمد ہی مجھے لگی اور سب سے زیادہ متشابہ سورۃ الشعراء میں لگا۔ جب میں بھائی ہلال سے سنانے میں اٹک جاتا تو وہ مجھے لقمہ دے دیتے اور میں آگے بڑھ جاتا۔ مگر کچھ ہی دنوں میں اس لقمے کی عادت سی ہو گئی اور میں سورت یاد کرتا تو تھا مگر بغیر لقمہ کے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا تھا۔ جبکہ مجھے یاد ہے کہ جب تک مولانا عمیر صاحب کو میں قرآن سناتا رہا، پوری مدت میں اُن کی طرف سے مجھے دو چار لقمے بھی نہیں ملے ہوں گے مگر اللہ خیر کرے جناب بھائی ہلال صاحب کا، کہ جب سے میں نے قرآن انھیں سنانا شروع کیا، بغیر لقمہ کے آگے بڑھ ہی نہیں پاتا تھا۔ اور ایک دن ایسا بھی آیاکہ اب میں اور بھائی ہلال دونوں فجر نماز کے بعد ہوٹل میں ایک ساتھ چائے پیتے اور پھر گپ شپ شروع ہو جاتی۔ اس کے بعد میرا حفظ کا سلسلہ ٹوٹ گیا اور میں آج تک حافظ نہیں بن سکا جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔ ایک تلخ تجربہ: یہاں میں اپنی زندگی کا ایک قیمتی تجربہ اپنے ساتھیوں کو بتلاؤں گا اور وہ تجربہ یہ ہے کہ براہ کرام آپ اپنے ہم عمر سے علم حاصل کرنے کی بجائے بزرگوں سے حاصل کریں۔ مجھے اس کا اتنا تلخ تجربہ ہے کہ میں آپ کو الفاظ میں نہیں بتا سکتا!! غرض میں نے حفظ مکمل نہیں کیا اور آج تک ادھورا ہوں۔ مگر اللہ کا فضل ہے کہ میرے دونوں بیٹے دانش رضوان اور فیصل رضوان کلاس کے ساتھ سعودی عرب میں حفظ کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ میرے سارے بچے حافظ قرآن ہو جائیں۔ یہ تو عمر آباد کی ایک چھوٹی سے داستان تھی جو میں نے یہاں بیان کر دی۔ حالانکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ لکھنے کا شوق: مجھے یاد ہے کہ سب سے پہلے میں نے جو مضمون لکھا تھا وہ ’’دجال‘‘ کے موضوع پر تھا۔
Flag Counter