کر لیتا اور انھیں جا کر صبح سنا ڈالتا۔ جب انھوں نے میری یہ رفتار دیکھی تو بڑے خوش ہوئے اور ایک دن مجھ سے کہنے لگے: عزیزم رضوان! اب الحمد للہ تمہارا حافظہ کھل گیا ہے، مجھے امید ہے کہ تم بہت جلد حفظ مکمل کر لوگے، تم دیکھ ہی رہے ہو کہ میرے پاس وقت نہیں ہے، کئی ایک طلبہ کا سبق اسی وقت سننا پڑتا ہے، اس لیے کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم اپنے کسی حافظ قرآن ساتھی کو نماز فجر کے بعد روزانہ سبق سنا ؤ، کسی اچھے حافظ کا ساتھ کر لو اور اس کو صبح صبح چائے وغیرہ ناشتہ کرا دو اور اسی کو اپنا سبق سنا دیا کرو۔ اس طرح تمھارا مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور مجھے وقت کی تنگ دامانی سے قدرے راحت مل جائے گی۔[1]
میں چشم دید گواہ ہوں۔ واقعی مولانا عمیر صاحب کے پاس صبح صبح طلبہ کی قطار لگی ہوتی تھی۔ میرے لیے بڑی مشکل سے انھوں نے وقت نکالا تھا۔ میں نے ان کے کہنے کے مطابق عمل کیا۔ مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ دن میرے لیے اس بات کا سرٹیفکٹ لے کر آیا تھا کہ چند دنوں بعد میرا بیڑہ غرق ہونے والا تھا اور مجھے حفظ نصیب نہیں تھا۔ جب سے میں نے مولانا عمیر صاحب کو سنانا شروع کیا تھا، اس سے پہلے ہی سے میں حفظ کی کوشش میں لگا تھا اور کئی ایک سورتیں یاد بھی کر لی تھیں اور مولانا عمیر صاحب کے پاس بھی کئی پارے حفظ کر لیے۔ میرے اندازے کے مطابق میری یاد کردہ سورتوں کا تخمینہ کم وبیش کوئی نصف قرآن بنتا تھا۔ میں مولانا عمیر صاحب کی معذرت کے بعد اپنے ایک سنیئر ساتھی بھائی ہلال کو قرآن سنانے لگا۔ ہلال بھی صوبہ بہار ہی کے رہنے والے تھے۔ میں چند ہفتے انھیں چائے پانی کے بعد صبح سویرے قرآن سناتا رہا۔ مگر جب سورۂ محمد کے حفظ کی باری آئی تو میں نے ایک دو دنوں میں
|