مولانا عبد الواحد عمری مدنی، ڈاکٹر عبد اللہ جولم عمری مدنی، مولانا حفیظ الرحمن عمری مدنی اور شیخ الحدیث مولانا ظہیر الدین اثری وغیرہ حفظہم اللہ۔
حفظ قرآن کریم کا شوق:
قابل ذکر ہے کہ میں نے عمر آباد میں دیکھا کہ میرے اکثرساتھی قرآن کریم کے حافظ ہیں اور باوجودیکہ ان سے میرے نمبر بھی اچھے تھے مگر مجھے اندر ہی اندر ایک قسم کی گھٹن سی محسوس ہوتی تھی اور قرآن کریم کے حفظ کا شوق مجھے ہونے لگا تھا۔ چنانچہ میں نے استاذ مکرم مولانا عمیر عمری حفظہ اللہ سے یہ اتفاق کیا کہ میں روزانہ صبح نماز فجر کے بعد آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر قرآن سنایا کروں گا۔ استاذ مکرم نے میرا شوق اور ذوق دیکھ کر ہامی بھر لی۔ میں کئی ماہ تک ان سے قرآن پابندی سے سناتا رہا۔ اب میرا حال یہ تھا کہ میں گیارہ بجے رات کو ہاسٹل میں سو جاتا اور جیسے ہی اڑھائی بجتے میرے الارم کی گھنٹی بجتی اور میں خاموشی سے اٹھ کر ہاسٹل کا دروازہ کھولتا اور باہر آ کر قرآن یاد کرنے لگتا۔ان دنوں ہاسٹل کا دربان میرے اوپر یہ کرم کرتا کہ ہاسٹل کے باب رئیسی کی کنجی مجھے روزانہ دے دیتا۔ یہ میرا اور اس کا اتفاق تھا جو آج تک کوئی نہیں جان سکا۔ میں اس کے کرم کے عوض میں دس پانچ روپے اسے دے دیا کرتا تھا۔ ہاسٹل کے باہر کمپاؤنڈ کی روشنی میں قرآن یاد کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بالعموم قرآن کا حفظ بآواز بلند کیا جاتا ہے جبکہ ہاسٹل میں اگر آواز بلند ہوتی تو ایک تو ساتھیوں کو حرج ہوتا، دوسرے وارڈن صاحب کی سرزنش کا ڈر تھا۔ اس لیے ہاسٹل سے باہر نکل کر قرآن یاد کرتا اور صبح کی اذان سے کوئی آدھا گھنٹہ قبل ہاسٹل میں آ کر بستر پر سو جاتا۔ میرا یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا رہا تب کہیں جا کر چند ساتھیوں کو میرے اس فعل کا علم ہوا۔
میرا معمول تھا کہ میں اذانِ فجر سے آدھا گھنٹہ قبل آ کر بستر پکڑ لیتا۔ صبح نماز فجر کے ساتھ ہاتھ میں قرآن لے کر مسجد میں چلا جاتا اور نماز کے آدھے گھنٹہ بعد مولانا عمیر صاحب عمری کی خدمت میں پہنچ کر انھیں سبق سناتا۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ میں زیادہ سے زیادہ سبق مولانا صاحب کو سنانے لگا۔ مجھے یاد ہے کہ میں رات میں چار پانچ رکوع آسانی سے یاد
|