Maktaba Wahhabi

392 - 400
جاتے تو میں باہر روشنی میں قلم اور روشنائی لے کر آ جاتا اور اس وقت ہاسٹل نگراں سے چھپ کر کتابت کی مشق کرتا۔ چنانچہ کم ہی مدت میں میں کتابت میں ماہر ہو گیا اور اردو عربی کتابت جتنا درس میں شامل تھا مکمل کر لیا۔ بلکہ جامعہ میں عبد الودود نامی طالب (جھمکاوی) کا صرف ایک نمبر مجھ سے کتابت میں زیادہ تھا یعنی اُن کے نمبر تھے 99 اور میرے 98۔ غرض اتنی کم عمر میں میں نے کتابت کا علم سیکھ لیا تھا اور قلم کی نوک پلک کا خیال کرتے ہوئے اسے اپنی جگہ رکھنا سیکھ گیا تھا کہ ابھی مجھے خود ہی پر اعتبار نہیں آتا کہ اتنی کم عمری میں بھی یہ علم کیسے نصیب ہو گیا۔ جو لوگ کتابت اور فن کتابت کے اصولوں کے بارے میں علم رکھتے ہیں انھیں یہ ضرور اندازہ ہوگا کہ کتنی مشقتوں اور مشقوں کے بعد کتابت کا علم ملتا ہے۔ پھر کلاس کے ساتھ وقت نکال کر یہ علم سیکھنا ویسے بھی ایک معنی رکھتا ہے۔ جامعہ دار السلام عمرآباد میں : سن 1992ء میں میرا داخلہ جامعہ دار السلام عمر آباد، تامل ناڈو، جنوبی ہند میں ہو گیا۔ وہاں میرا داخلہ عربی کی دوسری جماعت میں ہوا۔ دوسری جماعت سے عا لمیت سال آخر (جماعت ششم) کے ابتدائی اڑھائی ماہ تک عمر آباد ہی میں میری تعلیم ہوئی اور 5 مئی 1996ء بروزاتوار میں کسی سبب سے جامعہ دار السلام سے تعلیمی سلسلہ منقطع کر کے منگل 7مئی 1996ء کو دہلی چلا آیا۔جامعہ دار السلام میں میں نے بڑی محنت سے تعلیم حاصل کی اور سچ تو یہ ہے کہ اس محنت کا فائدہ آج تک مل رہا ہے۔ وہاں میں نے جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی، وہ یہ ہیں : مولانا عبد الصمد جعفری عمری، مولانا عبد اللہ بن محمد افضل عمری مدنی (حیدر آبادی)، مولانا انیس الرحمن عمری مدنی (تامل ناڈو)، مولانا اسلم عمری،مولانا عبد السلام عبد الحمید عمری مدنی، مولانا عبد السلام عمری مدنی (ویلوری)، مولانا سعید احمد عمری (وانمباڑی)، مولانا عمیر عمری مدنی، مولانا وصی اللہ ندوی، ماسٹر رضوان اللہ (وانمباڑی)، ماسٹر مختار احمد (ترپاتور)، مولانا اطہر حسین عمری مدنی رحمہ اللہ، مولانا خلیل الرحمن اعظمی عمری، مولانا ظفر الحق شاکر عمری،
Flag Counter