Maktaba Wahhabi

400 - 400
میں کام کی خواہش نہیں رکھتا اور میں کسی بھی طرح سے علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ تم لوگ اب جامعہ ریاض العلوم کے کھلنے کا انتظار کرو اور میں گھر پیسہ لانے چلتا ہوں۔ مگر انھوں نے مجھے روک دیا اور کہنے لگے کہ نہیں یار! تمھارے پاس تو پیسے تھے ہی، ہماری وجہ سے ہی تو تمھارا پیسہ خرچ ہو گیا ہے، اس لیے تم ابھی گھر مت جاؤ، ہم کمانے جا رہے ہیں، اس سے گزر بسر ہو جائے گا۔ اس کے بعد وہ دونوں کمانے چلے جاتے اور میں کمرہ میں لکھتا پڑھتا رہتا۔ مگر مجھے دوستوں کی مجبوری دیکھی نہ گئی اور میں نے اصرار کیا کہ مجھے بھی کمانے لے چلو۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں کمرہ میں بیٹھا رہوں اور تم کمانے جاؤ۔ میرے اصرار پر وہ مجھے کام کے لیے لے گئے۔ اور پلیٹ ہم نے پھینک دی: میں جس گھر میں کام کے لیے گیا، اس کی مالکن کا نام ہیم لتا تھا۔ یہ ایک عیاش قسم کی خاتون تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کسی زمانے میں وہ لڑکیوں کی سپلائی کا فریضہ بھی انجام دیا کرتی تھی۔یہ دہلی کے علاقہ راجندر نگر کی رہنے والی تھی۔اس کی چار منزلہ عمارت کی چھت پر کھانا بنتا اور وہ کھانا پیک کر کے دہلی کے علاقہ ریس کلب میں کلب کے اندر جاتا اور وہیں فروخت ہوتا۔ میں نے کوئی ایک ہفتہ وہاں کام کیا۔ کام کی نوعیت کیا تھی، مت پوچھئے۔ دراصل دنیا میں کیسے کیسے غیرمعیاری اور عیاش لوگ ہوتے ہیں، ان کے بارے میں معلومات دینے کا اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ایک ذریعہ فراہم کیا تھا۔ میڈم مالکن کا شوہر معمولی اسکوٹر پر ڈیوٹی کرنے جاتا، میڈم کار پر ریس کلب میں موجود ڈھابے میں کھانا لے کر جاتی اور اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی جوان لڑکی اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ موج مستیاں کرتی۔ میں نے شام میں دیکھا کہ ریس کلب سے کھانا فروخت کر کے آتے وقت میڈم نے شراب کی بوتلیں خریدوائیں اور گھٹ گھٹ حلق سے اتارنے لگی۔ اس کے پاس تین بیٹیاں ہی تھیں، کوئی بیٹا نہ تھا۔ غرض ایک دفعہ اس کی اٹھارہ سالہ لڑکی نے مجھے بلایا اور میرا نام پوچھ کر کہنے لگی: یہ
Flag Counter