نام بدل دینا چاہیے۔ ابھی وہ اس موضوع پر بات ہی کر رہے تھے کہ رئیس الاعظم (جھجھری) نامی میرے ایک ہم جماعت نے کہا کہ اِس کا نام آج سے رضوان اللہ رہے گا اور واقعی اسی دن سے میرا نام رضوان اللہ ہو گیا۔ جبکہ آج بھی میری بستی کے بزرگ لوگ میرا پرانا ہی نام جانتے ہیں۔ بلکہ پرائمری اسکول کے اساتذہ آج بھی مجھے پرانے ہی نام سے یاد کرتے ہیں۔
مدرسہ سلفیہ کنز العلوم میں میں نے تیسری کلاس تک کی تعلیم حاصل کی اور اول درجے سے کامیاب ہوتا رہا۔ ان دنوں اس مدرسے کی تعلیم کا بڑا بول بالا تھا؛ بلکہ علاقے میں اس سے اچھی تعلیم کسی اور مدرسے میں نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے وہاں کے طلبہ بڑے قابل ہو کر نکلتے تھے۔ وہاں بچپن میں میرے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا جو آج تک مجھے یاد ہے۔ ہوا یہ کہ تیسری کلاس میں مجھے جوئنٹس کی بیماری لاحق ہو گئی جس کی وجہ سے مجھے علاج معالجہ کے لیے گھر آنا پڑا۔ میں کوئی تین ماہ تک علاج کراتا رہا۔ بیماری سے نجات پانے کے بعد جب مدرسہ پہنچا تو رات کے دس بج رہے تھے۔ دیکھا کہ سارے بچے محنت سے اس وقت بھی پڑھ رہے تھے۔ مجھے بتلایا گیا کہ صبح آٹھ بجے سے سالانہ امتحان ہے۔ میں نے سامان رکھا اور دوستوں کی کاپیاں لیں اور ان کے تعاون سے پوچھ پوچھ کر سوالات کے جوابات یادکرنے لگا۔ مولانا شکیل احمد اثری حفظہ اللہ جو کہ وہاں میرے استاذ تھے اور آج جامعہ امام ابن تیمیہ بہار میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے کئی صفحات پر چمن اسلام کے جوابات لکھوائے تھے۔ میں نے رات بھر میں سارے جوابات من وعن ازبر کر لیے اور صبح امتحان میں مکمل جواب لکھ دیا۔ اسی طرح شام کو تیاری کرتا اور صبح امتحان دیتا۔ نتیجہ سامنے آیا تو بورڈ پر سب سے پہلا نام میرا تھا اور میں فرسٹ آ چکا تھا۔ اس کے بعد مولانا شکیل احمد اثری حفظہ اللہ اساتذہ سے میرے بارے میں کہنے لگے کہ مجھے تو لگتا ہے کہ اِس بچے کو جناتوں کا تعاون حاصل ہے!!
یہ اللہ تعالیٰ کا میرے اوپر خاص کرم رہا ہے کہ مجھے سبق بہت جلد یاد ہو جاتا تھا۔ بلکہ
|