پہلی وجہ ہے کہ جب مشرکین مطلق کہا جائے تو اس میں اہل کتاب داخل نہیں ہوں گے چونکہ اللہ تعالیٰ نے بیشتر آیتوں میں دونوں کو الگ الگ ذکر کیا ہے جیسے درج ذیل آیتیں ہیں :
﴿لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ﴾ (البینۃ:1)
’’ اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی، وہ کفر سے چھٹکارا پانے والے نہیں یہاں تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل آجائے۔‘‘
﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا﴾ ( البینۃ:6)
’’بے شک اہلِ کتاب میں سے جن لوگوں نے کفر کیا اور مشرکین، وہ سب جہنم کی آگ میں داخل ہو ں گے، اس میں ہمیشہ رہیں گے، وہی لوگ بدترین مخلوق ہیں۔‘‘
﴿مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ﴾ (البقرہ: 105)
’’اور کافر اہلِ کتاب اور مشرکین نہیں چاہتے کہ آپ کے اوپر آپ کے پروردگار کی جانب سے کوئی خیر نازل ہو۔ ‘‘
ان آیات کریمہ کے علاوہ بھی بہت ساری آیات ہیں جو اہلِ کتاب اورمشرکین کے درمیان فرق کو واضح کرتی ہیں۔
اس بنیاد پر اہلِ کتاب کی پاک دامن عورتیں ان مشرک عوتوں میں داخل نہیں ہوں گی جن سے شادی کی ممانعت کا حکم سورئہ بقرہ میں موجودہے، چنانچہ دونوں آیتوں میں کوئی تعارض باقی نہیں رہا۔
لیکن عدم تعارض کی یہ دلیل قابل قبول نہیں ہے، چونکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ جب مشرکین اور مشرکات علی الاطلاق کہے جاتے ہیں تو ان الفاظ میں اہلِ کتاب مرد اور عورت سب شامل
|