Maktaba Wahhabi

359 - 400
ہوتے ہیں، چونکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہلِ کتاب کافرومشرک ہیں، یہی وجہ تو ہے کہ وہ بھی مسجدِ حرام میں داخل ہو نے سے روک دیے گئے جیسا کہ اللہ عزوجل کافرمان ہے: ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا﴾ (التوبہ:28) ’’ اے ایمان والو! بلاشبہ مشرکین ناپاک ہوتے ہیں، اس لیے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔‘‘ اور مشرکین کے نام میں اہلِ کتاب داخل نہیں ہوتے تو یہ آیت اہلِ کتاب کوشامل نہیں ہوتی، اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے یہودو نصاریٰ کے عقیدے کاتذکرہ سورئہ براء ۃ میں کیا تو اس تذکرہ کے فوراً بعد ہی فرمایا: ﴿وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ (التوبہ:31) ’’حالانکہ انہیں تو صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالی ٰنے تمام کو (اہلِ کتاب ہوں یا مشرک)مشرک سے موصوف کیا ہے چونکہ یہود عزیر ابن اللہ اور نصاریٰ، مسیح ابن اللہ کہتے تھے اور ان تمام لوگوں نے اپنے احبار اور رہبان کو اللہ کے علاوہ معبود بنا لیا تھا اور یہ تو سب سے قبیح شرک ہے اور اس مفہوم کی بہت ساری آیتیں ہیں۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ سورۂ مائدہ کی آیت آیتِ بقرہ کی تخصیص کرتی ہے اور علمِ اصول کا یہ مشہور اور متفق علیہ قاعدہ ہے کہ خاص عام پر مقدم ہوتا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب کی پاک دامن آزاد عورتیں مسلمانوں کے لیے حلال ہیں اور وہ ان مشرک عورتوں میں داخل نہیں ہیں جن سے جمہور علما کے نزدیک نکاح کرنا جائز نہیں ہے، جس کی تفصیل صاحب المغنی کے کلام میں گزر چکی ہے۔
Flag Counter