دلیلیں پیش کی ہیں وہ دلیلیں عام ہیں، وہ تمام کافر عورتوں کو شامل ہیں اور ہم نے اس عموم سے اہلِ کتاب کی عورتوں کی حلت کوخاص کرلیا ہے اور قاعدہ کے مطابق خاص جب ثابت ہو جائے تو اسے عام پر مقدم کرنا واجب ہو گا۔
اس مسئلہ میں اولیٰ اور افضل یہ ہے کہ کسی کتابیہ سے شادی نہیں کی جائے، چونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جنہوں نے اہلِ کتاب کی عورتوں سے شادی کرلی تھی طلاق دینے کا حکم دیا تو حضرت حذیفہ کے علاوہ تمام صحابہ کرام نے جنہوں نے شادی کرلی تھی ان عورتوں کو طلاق دے دی، جب حضرت عمر نے حذیفہ سے طلاق دینے کو کہا تو انہوں نے دوبارہ پوچھا کہ کیا آپ یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ حرام ہیں ؟ اور دونوں مرتبہ انہوں نے یہی جواب دیا کہ ’’ھی خمرۃ‘‘ وہ نشیلی چیز ہے۔ پھر حضرت حذیفہ نے یہ کہا کہ آپ انہیں نشیلی سمجھتے ہیں لیکن وہ تو میرے لیے حلال ہیں، لیکن کچھ دنوں بعد انہوں نے بھی طلاق دے دی تو ان سے یہ پوچھا گیا کہ جب آپ کو عمر نے طلاق دینے کا حکم دیا تھا اس وقت آپ نے طلاق کیوں نہیں دی؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ میرے متعلق لوگ یہ کہیں کہ میں نے ایک غیر مناسب کام کر لیا ہے اور مجھے یہ خدشہ بھی پیدا ہو گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا دل اس کی طرف مائل ہو کر اس کے فتنہ میں مبتلا ہو جائے۔ اور یہ فکر بھی دامن گیر رہی کہ ممکن ہے اس کے ساتھ رہنے پر بچہ پیدا ہو تو اس کا میلان اپنی ماں کی طرف ہو جائے۔‘‘ (المغنی لابن قدامہ)
حافظ ابن کثیر اورابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہما نے اس سلسلے میں جو کچھ بھی لکھا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سورئہ بقرہ کی آیت: ﴿وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ﴾اور سورئہ مائدہ کی آیت﴿اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَ طَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّہُمْ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمَّْ﴾ کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے او ر اس عدم تعارض کی دو وجہ ہے:
|