البتہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نصرانی عورتوں سے شادی کے قائل نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس سے بڑا کوئی شرک نہیں کہ کوئی نصرانی عورت یہ کہے کہ اس کا رب عیسیٰ ہیں اور مشرکہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ﴾ (البقرہ:221)
ابن ابی حاتم ابو مالک غفاری سے نقل کرتے ہیں کہ جب یہ آیت:﴿وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ﴾ نازل ہوئی تو لوگ ان عورتوں سے شادی کرنے سے گریز کرنے لگے پھر جب اس کے بعد کی آیت:﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ نازل ہوئی تو اہلِ کتاب کی عورتوں سے شادی کرنے لگے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے اہلِ کتاب کی عورتوں سے شادی کی اور اس آیت سے انہوں نے سورئہ بقرہ کی آیت:﴿وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ﴾ کی تخصیص کردی۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت کے عموم میں اہلِ کتاب کی عورتیں داخل ہیں، تب تو دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
حالانکہ مختلف مقامات پر قرآن کریم کے اندر اہلِ کتاب کا تذکرہ مشرکین سے الگ کیا گیا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:
﴿لَمْ یَکُنْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ مُنفَکِّیْنَ حَتّٰی تَاْتِیَہُمُ الْبَیِّنَۃُ﴾ (البینہ:1)
’’اہل کتاب اور مشرکین میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی، وہ کفرسے چھٹکارا پانے والے نہیں یہاں تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل آجائے۔ ‘‘
اور ایک جگہ ارشاد ہے:
﴿وَ قُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَ الْاُمِّیّٖنَ ئَ اَسْلَمْتُمْ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اہْتَدَوْا﴾ (آل عمران:20)
’’اور آپ اہلِ کتاب اور مشرکین عرب سے کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگوں نے بھی اپنا
|