کی تمہید کے طور پر فرمایا ہے اور وہ ہے:
﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾
’’ ان کی پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی (تمہارے لیے حلال کردی گئیں )۔ ‘‘
ابن جریر مجاہد کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اس آیت میں وارد لفظ محصنات سے مراد آزاد عورتیں ہیں، اور ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ آزاد سے مراد پاک دامن عورت ہے اور یہی جمہور کا قول ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ عورت ذمی ہو نے کے ساتھ ساتھ پاک دامن بھی نہ ہو،اور اگر ایسا ہواتو بالکل بیکار ثابت ہو گی اور اس پر یہی مقولہ صادق آئے گا کہ کریلا نیم چڑھا۔
آیت کریمہ کا ظاہر ی مفہوم یہ ہے کہ محصنات سے مراد ایسی عورتیں ہیں جن کا دامن زنا سے پاک ہو، جس کی تائید دوسری آیت: ﴿مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ﴾(النساء:25) ’’ وہ پاک دامن ہوں زانیہ نہ ہوں، اور پوشیدہ طور پر شناساؤں کو رکھنے والی نہ ہوں۔‘‘ سے ہوتی ہے۔
مفسرین اور علماء کے درمیان آیت کریمہ کے اس شق ﴿وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾’’ ان کی پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی (تمہارے لیے حلال کردی گئیں ) ‘‘ میں اختلاف پایا جاتا ہے، کہ کیا یہ آیت اہل کتاب کی تمام پاک دامن عورتوں خواہ وہ آزاد ہوں یا لونڈی, سب کو عام ہے؟ اس کے متعلق ابن جریر سلف کی ایک جماعت کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے محصنہ کی تفسیر عفیفہ پاک دامن سے کی ہے، امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ یہاں اہلِ کتاب سے مرادیہودی عورتیں ہیں اور تیسراقول یہ ہے کہ اس سے مراد ذمی عورتیں ہیں، حربی نہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِر﴾ (التوبہ:29)
’’ ان اہل کتاب سے جنگ کروجونہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پر۔‘‘
|