Maktaba Wahhabi

245 - 400
اس کی خاطردوامیراوران کے جانشین تاریخ میں ایک بری مثال بننے جارہے ہیں مورخ انھیں معاف نہیں کرے گااب بھی سجدہ سہوکا وقت ہے۔ اس پر بھی کہہ دیا جائے گا دوررہ کر لکھے جاتے ہیں مسئلے کو سمجھتے نہیں ہیں۔ اللہ والوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ بدیہی حقائق اوران کے میٹنے والوں کو سمجھنے کے لیے قرب مکانی کی ضرورت نہیں۔ دراصل جب انسان کوشرح صدرنہ حاصل ہوتو اسے دانشوری زیادہ سوجھتی ہے۔ ہزار بہانے ڈھونڈھتا ہے پکڑسے بچنے کے لیے غلطیوں کی نشاندہی کرنے والا کوئی آڈیٹرنہیں ہوتاکہ حساب چک کرے اورآنہ پائی کا حساب بتلائے۔ اشارہ کردیاجاتاہے کہ خود انسان کا ضمیرزندہ ہوجائے اورراہ راست پر آجائے وہ کوئی فریق نہیں ہوتا کہ ہرشے میں آکر کریدکرے۔ شیخ کی ایک بڑی خوبی تھی سادگی۔سادگی لباس میں، کھانے پینے میں، رہن سہن میں کروفر کا کوئی مظاہرہ نہیں دنیا کا سب سے عظیم اور بڑا مومن مگرانکساراور تواضع کایہ حال کہ ایک مزدور بھی وہاں پہنچ کر خود کو حقیرنہ سمجھے اور بڑا سے بڑا طنطنے باز بھی وہاں اپنے کو اونچا نہ سمجھے۔ ایسا شخص جس کے پاس غریبی امیری وجاہت وثروت غربت وفقر کی ساری دشائیں ایک ساتھ جڑجائیں، سادگی فطری شے ہے اورفطری شے میں سب یکساں ہوا کرتے ہیں۔ سادگی تکلف بناوٹ تصنع اورمظاہرہ ٔکروفر کے حصار سے نکال کر انسانوں کو ایک سطح پر جمع کردیتی ہے۔ اوراونچ نیچ کی مرتفع ومنخفص سطحوں کو برابر کردیتی ہے۔ جس قدر سادگی زیادہ ہوگی اسی کے بقدر انسان کے اندر موجود خیر کی صلاحیتیں ابھریں گی اس کے برعکس انسانی زندگی میں تصنع بناوٹ اورتکلف درآنے سے انسانی صلاحیتیں پنہاں ہوتی جائیں گی۔ سادگی میں زندگی آسان ہوتی ہے اورمسائل کا گھیرا نہیں ہوتا۔ اگرانسان تکلفات کو اپنے اوپر لادلے تواس کے قیمتی اوقات آئینہ دیکھنے اوررخ وزلف اورکاکل سنوارنے میں قتل ہوجاتے ہیں۔ شیخ نے جوسادگی اختیار کی تھی وہ مثالی تھی۔ ہندوستانی خانقاہی مولویوں کی طرح نہیں کہ فقرکادعویٰ ہے اورخادموں کاپراہے۔ نذرانوں کی ریل پیل، سطوت وحکمرانی ہے اوربسااوقات عجزوفقر کے لفافے میں اکڑ اورمکرہے۔ شیخ کی سادگی ظاہرداری نہیں تھی۔ ان کے ہاں سادگی ایک
Flag Counter