جھگڑنے والوں کو جوڑنے کی کوشش کی۔ افغانستان میں تمام جہات کوملانے اورمتحدکرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ہرجگہ فرق مجاہدہ کو متحدکرنے کی کوشش کی۔ شاید کوئی ایسا ملک نہ ہوگا جہاں علماء اورجماعتوں کو باہم متعاون رہنے کی تلقین نہ فرمائی ہو اور اتحاد وائتلاف کی راہ نہ سجھائی ہو۔ خود ہندستان کی جماعت اہل حدیث پر خاص نظر عنایت تھی او رہرطرح کا تعاون تھالیکن مولویوں نے اس تعاون اور نظر عنایت کی۔کماحقہ قدر نہ کی۔نہ ان کے جذبات اور احساسات کوپوری طرح نگاہ میں رکھا۔ البتہ ان سے عقیدت ومحبت کا مظاہرہ ضرور کیا۔ جس کے وہ مستحق تھے۔ شیخ ابن باز کو اہل حدیث منزل خریدنے کا پتہ چلا۔ انہوں نے فوراً جمعیۃ کے حق میں بھرپورمددکردی۔ مگرآج تک التوا ہورہا ہے اورکتاب وسنت کے عامل،اصلی مسلمان اور جماعت وجمعیۃ کے ذمہ دارتیس سال بیت جانے پر بھی اپنے دل ودماغ کی کھڑکیوں کو بندکیے اپنی برتری کی دنیا ٹال مٹول میں جی رہے ہیں۔ جولوگ روشن دن کی طرح کھلی حقیقت کو تسلیم نہیں کرپارہے ہیں اورجماعت کے ساتھ تیس سال سے ٹال مٹول کررہے ہیں اوروہ بھی خیرات وصدقات کے پیسوں پر نہ کہ اپنی حلال کمائی پر، ان کے احساسا ت اورذہنی وقلبی حالت کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے۔ کیاان کی سوچ پردنیا داری کاپہرہ نہیں لگا ہے۔ اوراس صریح زیادتی اوردنیاداری پرتیس سال سے جمعیۃ کے لوگ عموماً گونگے پن کے شکارہیں۔ اورجس نے گفتگو کی کوشش کی اسے رسوا کیا گیا۔ اب کچھ شعورجاگ رہا ہے شیخ عطا رسواہوئے، خلجی رسوا ہوئے، اصغر رسوا ہوئے امیرجمعیۃ حافظ محمد یحییٰ کو رسوا کیا گیا۔ پھربھی ایسے لوگ خودکوسمجھ داراورجمعیۃ کے ذمہ دار سمجھتے ہیں اور آئیں گے توصدرنشین بننا چاہیں گے اوربہت سے عقل مندقسم کے لوگ ایسے لوگو ں کو بڑی اہمیت بھی دیں گے۔ چند گززمین اورچند لاکھ خیرات کے روپیوں کی خاطر ایسے لوگ تاریخ میں خود کو رسوا کررہے ہیں اوراپنی زشت نامی ثبت کررہے ہیں۔ اللہ ان کو عقل دے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرہ نہ بگاڑیں اورتاریخ میں ان کانام یوں نہ آئے کہ تیس سالوں تک کچھ لوگوں کی دونسلوں نے جمعیۃ کویرغمال بنائے رکھنے کی کوشش کی۔ چارسوگز زمین کا ایک ٹکڑا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن افسوس
|