ان کی مصارعت اورمصادمت کا ہو مسئلہ انتہا پسندی یا عنف کا ہو۔ مسئلہ پورے عالم میں ظالموں کے خلاف مسلمانوں کا ہو، مسئلہ شریعت کی تنقید کاہو، بے شرمی فیشن فضول خرچی غربت کا ہو، تعلیم کا دعوت وارشاد کاہو، غرباء پروری کا ہو، مسئلہ ایران عراق کا ہو، مسئلہ پورے عالم میں ظالموں کے خلاف مسلمانوں کے جہاد کا ہو، مسئلہ ایران عراق جنگ کا ہو، صدام کا کویت پرحملے کا ہو، شرک بدعات اور بے پردگی کاہو۔ تجدد پسندی الحاد اور دہریت کا ہو، ہرایک مسئلہ پرکتاب وسنت کی روشنی میں ان کی جچی تلی رائے تھی۔ اوراصابت رائے سے وہ سرفراز تھے۔
یہی حال ان کے ردباطل کا تھا۔ باطل کہیں سرنکالے منکرات کہیں بھی رونما ہو، ملک میں ہو، بیرون ملک ہو۔ اس کا ارتکاب عورت کرے، مردکرے، عالم کرے، حکمران ولیڈر کرے اس پر نکیر کرتے تھے۔ لیکن اس میں حسب حال شدت کی ضرورت ہو شدت اختیار کرتے نرمی کی ضرورت ہو نرمی کرتے، لیکن رد باطل سے کبھی چوکتے نہیں تھے۔ رد باطل کا تعلق کلمہ حق عندسلطان جائرسے ہے۔ رد باطل جہاد ہے اوراسلامی غیرت وحمیت کا ترجمان، جاہدالکفار والمنافقین و غلظ علیہم کے حکم کی تعمیل ہے۔ رد باطل تاریکی میں ٹارچ دکھانے کاکام ہے۔ رد باطل بے حسی بے غیرتی خود پرستی اور مفاد پرستی کے ماحول میں سخت ناپسندیدہ کام ہوتا ہے۔ رد باطل سے وہ لوگ اول وہلہ میں متنفر ہوتے ہیں جن پر زد پڑتی ہے، لیکن دوسروں کے لیے مفید ترہوتا ہے اورخود باطل ضرور سوچتا پچھتاتا اورجھجکتا ہے اورباطل کی جرأت مندی میں کمی آتی ہے۔ رد کرنے والا رد باطل میں جس قدر حق بجانب مضبوط اور نزیہ ہوگا اسی کے بقدر رد باطل کا فائدہ ہوگا۔ بہرحال شیخ رد باطل میں موفق بھی تھے اورمسدد ومصوب بھی تھے اوراس کے آداب بھی جانتے تھے۔ شیخ نے ہمیشہ منکر کو ردکیا۔ان کی زندگی کا یہ بھی ایک خاص پہلو ہے اوراہم ترین پہلوہے۔ رد باطل کے ناحیے سے بہت سے علمانی اورمنافقین آپ کے شدید مخالف بھی ہوئے۔ گالیاں بھی دیں پھر آپ کی عظمت ماننے پر مجبور ہوئے اورآپ سے معذرت خواہ بھی ہوئے اورعفوودرگزر کی گزارش بھی کی۔ اورشیخ نے سارے مخالفین کو معذرت او ربلامعذرت معاف بھی کردیا۔ اورجو آپ کے فتاویٰ کی مخالفت
|