میسرہو اللہ سے صحیح رائے معلوم کرنے کے لیے استخارہ کااہتمام ہواورجتماعی جدوجہد مشورہ کے تحت جاری ہو توپھر کام کی انجام دہی میں آسانی ہوگی اورتکمیل بھی آسانی ہوجائے گی۔
اگرجائزہ لیا جائے تویہ سارے اسباب کسی عالم میں میسر نہ تھے نہ یہ صلاحیت کسی میں تھی،اسی طرح ان کا طریقہ کاربھی شیخ کی مانند نہ تھا۔ اورحق توہے کہ لوگ کسی معنی میں بھی ان کی مانند تھے نہ تقویٰ و طہار ت میں نہ تواضع میں نہ علم میں نہ اجتہاد وبصیرت میں نہ دین وملت کے لیے فدائیت میں نہ انھیں شیخ کے مقابلے میں بشری ومادی وسائل حاصل تھے۔نہ انھیں ان کی مانند میڈیا اورانفارمیشن کی سہولت حاصل تھی۔ نہ ہی ان کی مانند ان کے پاس جذبہ تھا۔ لوگ جغرافیائی حزبیاتی تنظیمی بندھنوں میں بند۔ اورعلی العموم تحریکی علماء اپنی حکومتوں اوراپنی عوام سے لڑتے رہے اورلڑلڑکر تباہ ہوتے رہے۔ لیکن شیخ کے یہا ں سلفی بصیرت کام کرتی رہی اوراللہ کی نصرت ساتھ دیتی رہی۔ دیگر یہ کہ شیخ کے یہاں تنظیمی اختلاف نہیں۔ امام متعین ہے اصول وضابطے ہیں اس کے مطابق کام ہورہا ہے اور ہر شخص ایک متعین ہدف کے لیے کام کررہا ہے، ہدف کی تکمیل اورذمہ داری نبھانے کی سب کو فکر ہے۔ نہ استبداد نہ سیاست بازی، نہ کھینچ تان، نہ اٹھاپٹخ، نہ کسی کو تقدس مآبی کا سودانہ کسی کو طبقہ اشرافیہ میں داخل ہونے یا داخلہ لینے کا دھن نہ ملی اداروں کو ذاتی ملکیت بنانے کا شوق۔ ساری سلبیاتی مصیبتوں سے شیخ محفوظ تھے اس لیے ان کے کام میں برکت تھی اوران کو اللہ کی نصرت حاصل تھی۔ بہت سے ان سے تعلق جتلاتے ہیں کیا بہتر ہواگروہ زبانی جمع خرچ کے بجائے ان کو پیمانہ بنائیں اوراپنی سیرت عادت اورتصرفات کا جائزہ لیں۔
شیخ کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے بصیرت عطا کی تھی۔ ایسی دینی بصیرت کہ سارے مسائل مشکلات اورنوازل کا حل تلاش کرتے تھے اورعموماً شیخ کا نقطہ نظر درست ثابت ہوتا تھا۔ ان کے حین حیات جس قدربھی مسلمانوں کے سامنے مشکلات آئے۔ پوری دلسوزی سے ان کو حل کرنا چاہا۔ دنیا میں کہیں بھی اورکسی بھی جگہ مسلمانوں پرآفت آئی۔ یا امت راہ راست سے بھٹکی انہوں نے راہنمائی کی۔ مسئلہ اخوانیوں پرمظالم کا ہو۔ یا
|