ہے توانسان کی شخصیت میں عمق اورگہرائی پیدا ہوتی ہے۔ وقار اور متانت سے نکھرتی ہے۔ کردار کے گرد وغبار اورگندگیاں دھل جاتی ہیں۔ انسان کے فکروخیال کو نشاط اور تازگی ملتی ہے۔
رقت قلب کے بغیر انسان روتا ہے مگریہ رونا مختلف ڈھنگ کا ہوتا ہے انسان خود پرست ہوتا ہے مفاد پرست ہوتا ہے خودپرستی یا مفاد کو ٹھیس لگتی ہے انسان روپڑتا ہے۔ بے ہوش ہوجاتا ہے اسے رقت لقب نہیں کہا جاتانہ اس کا بہت زیادہ اعتبار ہوتا ہے، انسان مظلومیت کے احساس کے تحت زندگی گزارتا ہے ذرا آنچ لگی رونے لگتا ہے اوررونے کی سی صورت بنالیتا ہے یہ رقت قلب کی علامت نہیں ہے۔ رقت قلب وہ معتبرہے جو اسلامی کاز کی بناء پر ہو۔ دین کی محبت ودینداروں کی محبت کی بناء پر ہو انسان کی ہمدردی کی بناء پر ہو۔
بیسویں صدی میں حالات انفجاری، مغربی الحادی افکار مسلم معاشرے میں مقبول، احداث کثرت سے وقوع پذیر، ساری دنیا سمٹ کر ایک بستی ہرطرز ہرروش ہرفکر ہرمنکر ہرفحش کو عالمی بننے میں دیر نہیں لگتی، معاشی پیچیدگیاں بڑھ گئیں، لوگوں کے ترجیحات بدل گئے فکر وخیال مادی بن گئے ظلم وطغیان میں اضافہ ہوگیا اوراس کا ردعمل بھی بڑھ گیا۔ فکروخیال میں ثبات اورقلب ونظر میں سکون ووسعت نہیں رہ گئی۔ وفاداریاں ختم ہوئیں اقدار وکردار کے بجائے سر او رزر گناجانے لگا۔ خود غرضیاں اورمفاد پرستیاں ڈھنگ ڈھنگ سے روپ بدل بدل کر سامنے آنے لگیں۔ ایسے ماحول میں تحریکیں وتنظیمیں بگڑگئیں مشروعات وانجازات متاثرہونے لگے۔ دینی ادارے بگڑنے لگے، علماء وصلحاء خوف زدہ ہوگئے اوربکھرنے لگے۔ صبروبرداشت کم ہوگئی، مروت وشرافت گہنانے لگی۔ دعوت وتبلیغ کے اثرات متاثرہوگئے۔ باطل افکار سے تاثرپذیری بڑھنے لگی،جذباتیت انتہاپسندی ہر رطب و یابس پر چھاجانے پر تیار ہو گئی۔ خارجیت اورجارحیت کو بڑھاوا ملنے لگا۔
ایسے ماحول میں شیخ علیہ الرحمہ نے کام کیا۔ منارہ نوربن گئے مشعل ہدایت اٹھائے بڑھتے رہے اورتادم آخریں استقامت کی راہ پرقائم رہے اورخلق الٰہی کے لیے ہدایت تسلی دلجوئی حوصلے اورہمت کا سامان بنے رہے۔ شیخ نے ہرفتنے کا مقابلہ کیا اورکسی طرح باطل کا
|